سینیٹ قرارداد: ویکسین اصل قیمت پر یا مفت فراہم کی جائے

سینیٹ اجلاس میں ایک طرف تو چند اپوزیشن جماعتوں کے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی پر اعتراضات جاری رہے، وہیں حکومت کے خلاف قرارداد منظور کرواتے وقت سب نے متفقہ رائے رکھی۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے پیش کی گئی  قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اکثر ممالک میں شہریوں کو کرونا ویکسین مفت لگائی جا رہی ہے جبکہ پاکستان میں ویکسین بہت مہنگی ہے ( تصویر: اےا یف پی)

سینیٹ کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں ایک طرف تو چند اپوزیشن جماعتوں کے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی پر اعتراضات جاری رہے، وہیں حکومت کےخلاف قرارداد منظور کرواتے وقت سب نے متفقہ رائے رکھی اور ایوان بالا میں کرونا (کورونا) ویکسین کی مفت یا اصل قیمت پر فراہمی سے متعلق قرارداد اکثریت رائے سے منظور کروالی گئی۔

جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے پیش کی گئی مذکورہ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اکثر ممالک میں شہریوں کو کرونا ویکسین مفت لگائی جا رہی ہے جبکہ پاکستان میں ویکسین بہت مہنگی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے ویکسین منگوانے کے لیے نجی کمپنی کو ٹھیکہ دے رکھا ہے۔ پاکستان میں ویکسین کی قیمت آٹھ ہزار 400 روپے ہے جبکہ دیگر ممالک میں ویکسین کی قیمت 1500 روپے ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 38 کی خلاف ورزی ہے، جس میں واضح ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرے، لہٰذا حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘

اپوزیشن کی اس قرارداد کے حق میں 43 ووٹ آئے جبکہ قرارداد کی مخالفت میں 31 ووٹ آئے۔ حکومت نے قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

سینیٹ کارروائی کا احوال

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کرونا کے باوجود ایوان میں اراکین کافی تعداد میں موجود تھے۔

اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ایوان بالا کی تشکیل ہوئی۔ اگر یہ پہلے ہوتا تو سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا اور ملک دو لخت نہ ہوتا۔‘

یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ ’سینیٹر بننا بہت مشکل ہے۔ میں ایم این اے کا الیکشن لڑتا رہا، اس لیے معلوم نہیں کہ سینیٹر کا انتخاب کتنا مشکل ہے۔‘ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ انہوں نے پی ڈی ایم کی سپورٹ سے الیکشن لڑا ہے۔

یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں جو تکالیف ہیں، اس کا تدارک ہم سب نے کرنا ہے۔ عوام کی ترجمانی ہمارا فرض ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہم سب ایک ہیں۔‘

ایک موقعے پر انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا: ’مجھے کہا گیا تھا کہ سینیٹ میں زیادہ عمر کے لوگ ہیں لیکن آج دیکھا تو یہاں نوجوان زیادہ ہیں۔‘

قائد ایوان سینیٹر وسیم شہزاد نے یوسف رضا گیلانی کی تقریر کے جواب میں کہا کہ ’سینیٹ کا الیکشن مکمل ہو گیا، لیکن سفر ابھی باقی ہے۔‘ انہوں نے 11 جماعتوں کے اتحاد پر بظاہر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’کبھی پی ڈی ایم کے نام سے بھی اتحاد ہوتا تھا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے حزب اختلاف کو اصلاحات کے لیے کام کرنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔

تقاریر اور اپوزیشن کی ایک دوسرے پر تنقید کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔

اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی پر اعتراض

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل تین جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل، جماعت اسلامی اور نیشنل پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ایوان میں احتجاج کیا۔

دوسری جانب بلوچستان کے سینیٹر شفیق ترین نے بھی اپوزیشن لیڈر کے چناؤ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے کہا: ’ہم اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے معاملے پر ایوان میں احتجاج کر رہے ہیں۔‘

آزاد سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’12 مارچ کو ایوان میں جو کچھ ہوا وہ سب کو پتہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ گروپ میں 31 اراکین جبکہ ن لیگ کے حمایت یافتہ پارلیمانی گروپ میں 27 اراکین ہیں جن کی نمائندگی اعظم نذیر تارڑ کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں کہا کہ ’ہمیں الگ اپوزیشن بینچز الاٹ کیے جائیں اور سینیٹ الیکشن میں خفیہ کیمروں کی تحقیقات کی جائیں۔‘

انہوں نے بلوچستان کے سینیٹروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے پانچ تحفے بھجوائے گئے۔‘

اعظم تارڑ کے ان ریمارکس پر یوسف رضا گیلانی کی حمایت کرنے والے سینیٹروں ( دلاور خان گروپ) نے احتجاج کیا اور اپوزیشن بینچوں میں الگ نشستیں مانگ لیں اور بعدازاں نشستیں نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔

سینیٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن کے دو الگ الگ اجلاس ہوئے۔ پیپلزپارٹی کے ارکان کے اجلاس کی صدارت یوسف رضا گیلانی نے کی جبکہ آزاد سینیٹروں کے اجلاس کی صدارت اعظم نذیر تارڑ نے کی اور آئندہ کی حکمت عملی طے کی گئی۔

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے معاملے پر پیپلز پارٹی  اور اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں اس حوالے سے جواب طلب کر لیا کہ اپوزیشن لیڈر بننے کے لیے حکومتی ووٹ کیوں حاصل کیے گئے۔

اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نےکہا کہ ’پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ آج سے سینیٹ میں ہمارا آزاد گروپ اپنا کردار ادا کرے گا۔‘

دوسری جانب اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے بھی پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس ملنےکی تصدیق کی ہے۔

اس ساری پیش رفت پر پارلیمانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ٹی ایم سینیٹ میں دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان