افغان صدر امن کی نئی تجویز منظرعام پر لانے کو تیار

سرکاری ذرائع کے مطابق اشرف غنی ترکی میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ کانفرنس میں طالبان کے ساتھ امن کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل اپنا پلان پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اشرف غنی کی تین مراحل کی تجویز  میں طالبان کے ساتھ سیاسی سمجھوتے تک پہنچنا اور بین الاقوامی سطح پر نگرانی بند جنگ بندی کا اعلان بھی شامل ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

افغانستان کے سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ امن کے لیے بین الاقوامی کانفرنس سے پہلے ایک تجویز تیار کرلی ہے۔ عالمی کانفرنس کا مقصد متحارب فریقوں کے درمیان مسائل کے شکار مذاکرات میں تیزی لانا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ نے روس اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کی جانب سے حمایت یافتہ اپنی ایک افشا ہو جانے والی تجویز میں کہا تھا کہ وہ عبوری حکومت میں طالبان کو بھی دیکھنا چاہتا ہے، تاہم اشرف غنی کا اصرار ہے کہ قیادت کا انتخاب صرف بیلٹ باکس کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اشرف غنی ترکی میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ کانفرنس میں تین مرحلوں پر مشتمل اپنا پلان پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم ابھی تک کانفرنس کی تاریخ کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایف پی نے صدر اشرف غنی کی تین مراحل پر مشتمل تجویز کے اہم نکات کی تفصیل حاصل کی ہے۔ ان نکات میں طالبان کے ساتھ کسی سیاسی تصفیے پر پہنچنا اور ایسی جنگ بندی کا اعلان شامل ہے، جس کی بین الاقوامی سطح پر نگرانی کی جائے۔

صدر اشرف غنی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ افغانستان میں قبل از وقت صدارتی الیکشن کروا دیا جائے جبکہ طالبان پر امن حکومت کے قیام کے لیے اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے اور آئینی ڈھانچے کی تشکیل نو ہو گی۔

افغان عہدے داروں نے کہا ہے کہ صدر اشرف غنی اپنے منصوبے کو پہلے ہی کئی عالمی سفارت کاروں کے ساتھ شیئر کر چکے ہیں۔ افغانستان کی ہائی کونسل برائے قومی مصالحت نے اتوار کو کہا ہے کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے ارکان، صدر اشرف غنی اور کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے 30 دستاویزات لے کر اپنی تجاویز تیار کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا