ڈسکہ کا ضمنی انتخاب اور تار تار دامن

حال پنجاب میں عوام کی ترجیح کی طرح عیاں ہے مگر بدقسمتی سے ڈسکہ کی طرح یہ نظام دھوکے سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے دوران تعینات پولیس (انڈپینڈنٹ اردو)

نجانے ہم نے کیسا نظام بنایا ہے۔ جھوٹ اور فراڈ کے لیے تو زمین زرخیز ہے۔ آبیاری کیے بغیر ایک جنگل اگا لیتے ہیں۔ مگر سچ کو سامنے لانے کے لیے پہاڑ کھودنے پڑتے ہیں۔

جن کو ہم مہذب معاشرے کہتے ہیں وہاں پر شہریوں کے لیے زندگی گزارنے کے اصول اس کے بالکل برعکس ہیں۔ وہاں فراڈیے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور قانون کا راستہ اپنانے والوں کے لیے راہیں ازخود کھول دی جاتی ہیں۔ جبھی تو وہاں برائی کوشش کے بغیر شکست کھا جاتی ہے اور یہاں جان چھڑانا ناممکن لگتا ہے۔

ڈسکہ کے انتخابات اس الٹے انتظام کی محض ایک مثال ہیں۔ پہلی مرتبہ کروائے گئے اس ضمنی الیکشن میں دن دیہاڑے بڑے پیمانے پر سوچا سمجھا فراڈ لاگو کیا گیا اور پھر ہر طرح کی تحقیق نے اس کو ثابت بھی کیا۔ تمام شواہد واضح انداز سے بتا رہے تھے کہ جیت کس کی ہوئی تھی۔ تمام حقائق کھلی انتخابی ڈکیتی کا مقدمہ بنا رہے تھے۔

مقامی رپورٹرز سے الیکشن کمیشن تک سب جان چکے تھے کہ ڈسکہ کے منسوخ شدہ ضمنی انتخابات میں عوام کی ترجیح کا بہاؤ کس طرف ہے۔ مگر یہ سب کچھ ثابت کرنے کے لیے اس انتخاب کو دوبارہ سے ایسے کروانا پڑا کہ جیسے امریکی صدر کی کرسی داؤ پر لگی ہو۔

اس انتخاب کو دوبارہ سے ایسے کروانا پڑا کہ جیسے امریکی صدر کی کرسی داؤ پر لگی ہو۔

کروڑوں روپے کا اضافی خرچہ ہوا، عوام کے ٹیکس سے بنے ہوئے وسائل پھر سے بروئے کار لائے گئے۔ ووٹروں کو دوبارہ سے انہیں فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے طلب کیا گیا جو وہ بیچارے اس سے پہلے تمام تر دیانت داری سے سرانجام دے چکے تھے، اور پھر آخر میں نتیجہ وہی نکلا جو پہلے بھی ثابت تو ہو چکا تھا مگر جھوٹ اور گمراہ کن بیان و بہانے بازیوں کی دبیز تہہ سے اس کو چھپا دیا گیا۔

360 پولنگ سٹیشنز سے حاصل ہونے والے نتائج کا تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ پنجاب میں عوام کی سیاسی راہیں حکومت وقت کے حق میں نہیں ہیں۔ وسائل دھڑا دھڑ استعمال کر کے بھی شہریوں کے مزاج اور غصے کا علاج ممکن نہیں۔ باوجود اس کے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نواز شریف کی غیر موجودگی، قیادت کے خلاف درج شدہ مقدمے اور پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے لیکن اس کا ووٹر پہلے سے بھی کہیں زیادہ استقامت لیے اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ بظاہر یہ ایک حیران کن عمل ہے۔

ہمارے جیسے ممالک میں طاقت سے بے دخل کیے جانے کے بعد جمہوری جماعتیں اپنی توانائی کھو دیتی ہیں، مقامی قیادت بے رخی اختیار کر لیتی ہے۔ ووٹر کو گھر سے باہر نکل کر ایک ایسے امیدوار کو جتوانے کا اہتمام کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی جس کو نہ ترقیاتی فنڈز ملنے ہیں اور نہ وہ ان کا تھانے اور کچہریوں میں کوئی کام کروا سکتا ہے، اور پھر جب بڑی قیادت کو سیاسی طور پر مسلسل زدوکوب کیا جا رہا ہو اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بیانیہ مسلسل دماغوں پر برسایا جا رہا ہو کہ ’ان سب کا مستقبل تاریک ہے‘ تو عوام کیوں اس جماعت کے نمائندگان کو ووٹوں کے ہار پہنائیں گے؟

مگر پولیٹیکل سائنس کا یہ سیاسی فلسفہ ایک طرف اور پنجاب میں ہونے والے انتخابی معرکوں کے نتائج دوسری طرف۔ حکومت کے سیاسی مخالفین دیوار سے لگائے جانے کے باوجود انتخابی مقابلے دھڑلے سے جیت لیتے ہیں اور ان کے اپنے نمائندے تمام تر طاقت رکھتے ہوئے بھی بے کس و لاچار نظر آتے ہیں۔

ڈسکہ کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ تین سال کے بدترین حالات کا سامنا کرنے کے باوجود ن لیگ نے اپنی سیاسی جڑوں کو کھوکھلا ہونے سے بچا لیا ہے۔ 2018 میں جیسے اس جماعت کے بخیے ادھیڑ کر حکومت کا شاہی لباس سیا گیا تھا اس کے بعد تو ن لیگ میں سے درجنوں باپ نما جماعتیں بننی چاہیے تھیں۔ ہر ضلع میں سے ایک گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بننی چاہیے تھی اور شیر کو ہر تحصیل میں جیپ کے نیچے روندا جانا چاہیے تھا۔ کم از کم پلاننگ کچھ یہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتائج بہرحال اس کے بالکل برعکس نکلے۔ ن لیگ میں سے باپ تو نہیں بنی البتہ تاحیات سیاست بدر کیے جانے والے جہانگیر ترین 8 آٹھ ایم این ایز اور تقریبا تین درجن صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ساتھ لیے ہر جگہ پر اپنی جماعت کی شکست و ریخت کی داستانیں رقم کرتے پھر رہے ہیں۔ جو سب کچھ ن لیگ کے سیاسی ورکروں اور مقامی سیاست دانوں سے اپنی جماعت کے خلاف کہلوایا جانا تھا وہ دستی جیسے ممبران پی ٹی آئی کی قیادت کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔

ایک انٹرویو میں ان کا فرمانا تھا کہ پنجاب کی ساری کابینہ انہی خیالات کی حامل ہے اور مرکز میں بھی وزرا یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان گورننس کی بدترین شکل کر گیا ہے۔ یعنی وہ میزائل جو 2018 میں تجرباتی طور پر دشمن کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے داغا گیا تھا ہزاروں میل کا سفر کرنے کے بعد اپنے ہی مورچے پر آن گرا ہے۔

اب یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب بھی اتنا ہی سادہ ہے جتنا ڈسکہ میں انتخابات سے پہلے عوام رائے کا بہاؤ  بھانپنا تھا۔ صاف بات یہ ہے کہ 2018 میں جو پلان مسلط کیا گیا تھا وہ ناقابل علاج حد تک تباہ ہو چکا ہے۔ عوام کی زندگیوں میں تباہ کن حالات نے جڑیں پکڑ لیں ہیں۔ گلی محلوں میں چیخ و پکار کے پیچھے ٹی وی پر ہونے والے تجزیے نہیں بلکہ بے روزگاری اور گرانی کا وہ وائرس ہے جس نے ہر فرد کی کمر توڑ دی ہے۔

پنجاب اس وقت اپنے بدترین انتظامی دور سے گزر رہا ہے۔ مرکز جو کسی زمانے میں اس صوبے کو ڈوریاں ہلا کر چلانے کی خواہش رکھتا تھا اب اپنے سر پر پڑنے والی خود ساختہ بلاووں سے کُشتی لڑ کر سانس پھلائے بیٹھا ہے۔ جہاں یہ پتہ نہ ہو کہ خزانے کی وزارت کس نے چلانی ہے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے کون موزوں امیدوار ہے وہ پنجاب کو کیا سنبھالیں گے۔

یہ قومی صورت حال پنجاب میں عوام کی ترجیح کی طرح عیاں ہے مگر بدقسمتی سے ڈسکہ کی طرح یہ نظام دھوکے سے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہاں سچ کو بار بار ثابت کرنا پڑتا ہے مگر جھوٹ کا جنگل اگانے کے لیے سرکاری بیج مفت میں دستیاب ہے۔

تو پھر اگاتے رہیں جھوٹ کے خاردار پودے۔ ہونے دیں اپنے دامن کو ایسے تار تار کہ رفو کرنا بھی ممکن نہ ہو۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ