حکومت کا فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کا فیصلہ

پیر کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا: ’2017 کی مردم شماری کے نتائج کو منظور کرلیا گیا ہے، تاہم اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔‘

28 مارچ 2017 کی اس تصویر میں  پاکستان بیورو آف  شماریات  کے ایک اہلکار لاہور میں  ایک گھر سے اعدادوشمار جمع کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران اسد عمر کا کہنا تھا کہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج کو منظور کرلیا گیا ہے، تاہم انہیں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 2017 کی مردم شماری پر ملک بھر میں سوالات اٹھائے گئے، جو ملک کی یکجہتی کے لیے اچھی چیز نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے چھ سے آٹھ ہفتے یعنی جون کے وسط تک نئی مردم شماری کا فریم ورک تیار کر لیا جائے گا، جس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل سے اس کی منظوری لی جائے گی اور اس کے چار ماہ بعد اس پر کام شروع کیا جا سکتا ہے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’اسی سال اکتوبر کے مہینے میں نیا سروے شروع ہوجائے گا اور 18 مہینے کا یہ عمل 2023 کے پہلے چھ مہینے میں مکمل ہوجائے گا، جس کے بعد اکتوبر- نومبر میں ہونے والے عام انتخابات تک نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کروائی جاسکیں گی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اجلاس کے دوران وفاق کے سات ارکان اور پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے اس کے حق میں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس سے اختلاف کیا۔

اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر برائے قانون اور ماحولیات اور پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں سی سی آئی کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیے جانے کے حوالے سے بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے سی سی آئی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی جمع کروایا۔

مرتضیٰ وہاب نے مزید لکھا کہ سندھ حکومت آئین کے آرٹیکل 154 (7) کے تحت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندہ امر گرڑو سے گفتگو میں مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ’2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے، جسے سندھ حکومت نہیں مانتی۔‘

انہوں نے کہا: ’سندھ کی کل آبادی 62 ملین یعنی چھ کروڑ 20 لاکھ ہے، مگر 2017 کی مرد شماری میں سندھ کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ کم یعنی چار کروڑ 70 لاکھ دکھائی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرتضیٰ وہاب کا مزید کہنا تھا کہ ’مردم شماری پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پہلے ہی اپنے تحفظات بتاچکے ہیں، مگر ان کے باوجود 2017 کے نتائج کی منظوری دے دی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سی سی آئی کی جانب سے منظور کردہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں اس معاملے پر ایک خط بھی لکھا تھا۔ اب سندھ حکومت آئین کے آرٹیکل 154 کی شق سات کے تحت اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھائے گی۔‘

واضح رہے کہ پیر کو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) اجلاس کے بعد اپنی پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے مشترکہ مفادات کونسل اور مردم شماری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم آج سے نہیں 2017 سے اس کے طریقہ کار کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔‘

بلاول نے مزید کہا: ’اس مردم شماری میں گنتی درست نہیں ہوئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے صاف و شفاف الیکشن ضروری ہیں، اسی طرح صاف و شفاف مردم شماری کروانا بھی پاکستان کے عوام کے مفاد میں اتنا ہی ضروری ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان