اردو اور سرائیکی گیتوں سے پوری دنیا میں شہرت پانے والے میانوالی کے گلوکار عطااللہ خان عیسٰی خیلوی اپنی موسیقی و شخصیت کی وجہ سے آج بھی پاکستان کے عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیے ماضی میں انہوں نے ایک مقبول سیاسی گیت بھی گایا۔ گانے کے بعد عطااللہ عیسٰی خیلوی کے بارے میں کئی قسم کے بیانات سوشل میڈیا پر نظر آنے لگے جن میں سے کچھ عرصے سے گردش کرنے والی ایک وائرل مبینہ خبر یہ بھی ہے کہ وہ عمران خان اور ان کی پارٹی سے منسوب ہونے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
اس پوسٹ میں جہاں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی کردارکشی کی گئی ہے وہیں مبینہ طور پر اس میں عطا اللہ عیسٰی خیلوی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان نے انہیں ایک ہی قبیلے سے وابستگی کی بنیاد پر دھوکہ دیا ہے۔
پوسٹ میں گلوکار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا گیا ہے کہ ’میں نے گلوکاری کی وجہ سے بہت عزت کمائی، جس کی ایک وجہ میری سیاست سے لاتعلقی بھی تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے لیے ’بنے گا نیا پاکستان‘ گا کر میں نے اپنی زندگی کی فاش غلطی کی، اور اپنی عزت کو داؤ پر لگا بیٹھا۔۔۔‘
جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس خبر کی تصدیق کے لیے عطا اللہ عیسٰیٰ خیلوی سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے اور پی ٹی آئی کے حوالے سے سامنے آنے والی ان خبروں میں کتنی صداقت ہے تو انہوں نے اس بیان کو ’ایک بھونڈی کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ جھوٹ ہے۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ یہ کسی مخالف گروپ کا کام ہے۔ میں کئی بار اس کی تردید کر چکا ہوں، لیکن پھر بھی ایسی من گھڑت خبروں کو پھیلایا جا رہا ہے۔‘
امریکہ میں مقیم عطا اللہ عیسٰی خیلوی کے صاحبزادے اور گلوکار سانول نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے والد کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد اور عمران خان کا تعلق اس زمانے سے ہے جب عمران خان نے سیاست میں ابھی قدم بھی نہیں رکھا تھا۔
’لوگوں نے میرے والد کے خلاف بہت پروپیگینڈا کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے موت کی جھوٹی خبریں بھی چلائیں۔ ایسا کرنا غلط ہے، کیونکہ میرے والد سیاسی شخص نہیں ہیں، وہ تو ایک فنکار ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفونک بات چیت کرتے ہوئے عطااللہ عیسٰی خیلوی نے اس قسم کی خبروں کے پیچھے محرکات کے بارے میں بتایا کہ پاکستان کی بعض سیاسی پارٹیوں اور تنظمیوں نے ان سے فرمائش کی کہ وہ ان کے لیے بھی گانے اور ترانے گائیں، تاہم انہوں نے صاف انکار کیا۔
’مجھے خطیر رقم کی پیشکش ہوئی اور انکار کی صورت میں دھمکیاں بھی ملیں۔ لیکن مجھے کسی سے کوئی ڈر نہیں۔ میں پچھلے 50 سال سے گلوکاری سے وابستہ ہوں۔ اگر ڈرنا ہوتا تو بہت پہلے یہ پیشہ چھوڑ چکا ہوتا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے ترانے نہیں گائے تو انہوں نے کہا: ’میری طبیعت ہی نہیں مان رہی تھی۔ عمران خان سے میرا ذاتی تعلق ہے۔ اور ایک دوست ہونے کے ناطے میں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ ان کے لیے گیت گاؤں۔ سیاسی شخص تو میں ہوں نہیں اور نہ ہی میرا الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عطااللہ خان عیسٰی خیلوی کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کا گاؤں و قبیلہ ایک ہے، تاہم ان کی ملاقات پہلی دفعہ لاہور میں ہوئی تھی، جس کے بعد دونوں کی دوستی اس حد تک بڑھی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا بھی رہا۔
’جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی تو میں نے اسی دن سے اس کے لیے خدمت کرنا شروع کیا۔ عمران خان کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک کے سفر پر گیا اور چندے اکھٹے کیے۔ اور ہر جگہ بہت عزت افزائی ملی۔‘
عیسٰی خیلوی کے مطابق ان کے قبیلے کا نام ان کے پردادا عیسٰی خان نیازی سے منسوب ہے جو افغانستان سے تعلق رکھتے تھے اور شیرشاہ سوری کی فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا مزار بھارت کے شہر دہلی میں ہے۔
کرونا وبا کی وجہ سے جہاں دیگر فنکاروں کی زندگی متاثر ہوئی ہے وہیں عطااللہ خان عیسٰی خیلوی بھی موجودہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ گھر تک محدود ہو گئے ہیں۔
’موسیقی کے حوالے سے کچھ زیادہ نہیں ہو رہا۔ کچھ ماہ قبل ایک سرائیکی گانا ’محبت‘ ریلیز کیا تھا۔ اب تو بس اکا دکا کسی ٹی وی پروگرام میں شرکت کر لیتا ہوں۔‘
عطااللہ خان نیازی جو عطااللہ خان عیسٰی خیلوی کے نام سے مشہور ہیں، اپنے حلقہ احباب میں ’لالہ‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔