اٹلی: سرکاری ملازم کا بغیر حاضری 15 سال تنخواہ لینے کا ریکارڈ

اطالوی اخبار ایل کورئیری ڈیلا سیرا کے مطابق مذکورہ شخص کی 15 سال کی غیر حاضری ایک قومی ریکارڈ ہے۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

اتلی میں ایک شخص نے اپنی ملازمت کے دوران مسلسل 15 سالوں تک کام پر نہ جانے کے بعد طویل ترین عرصے سے غیر حاضر رہنے کا قومی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق یہ شخص جنوبی اٹلی کے شہر کلابریا کے ایک ہسپتال میں ملازم ہے جو ایک گھنٹے کے لیے بھی کام پر نہ جانے کے باوجود گھر بیٹھے تنخواہ وصول کر رہا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص 15 سال سے غیر حاضر رہنے کے باوجود تنخواہ کی مد میں تقریبا پانچ لاکھ یورو وصول کر چکا ہے۔

اطالوی خبر رساں ایجنسی اے این ایس اے کے مطابق مذکورہ شخص، جن کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے، کو دھوکہ دہی، دھونس اور اپنے عہدے کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کا سامنا ہے۔

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد کتنزارو کے ہسپتال میں ان کے چھ اعلی افسران سے بھی تفتیش کی جارہی ہے۔

اطالوی اخبار ایل کورئیری ڈیلا سیرا کے مطابق مذکورہ شخص کی 15 سال کی غیر حاضری ایک قومی ریکارڈ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اطالوی میڈیا کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ مذکورہ شخص نے کام سے غیر حاضر رہنے اور نظم و ضبط کی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنے ساتھیوں کو ڈرایا دھمکایا۔

2005 میں ان کو بھرتی کیا گیا تھا اور اسی سال ہی ان پر مبینہ طور پر اپنے مینیجر اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

تاہم یہ اٹلی کے سرکاری شعبے میں کام چوری اور طویل غیرحاضری کا پہلا اور واحد سکینڈل نہیں ہے۔

اس سے قبل 2016 میں نیپلس کے قریب واقع ایک قصبے کی انتظامیہ کو میونسپل کے بیشتر کام اس وقت بند کرنا پڑ گئے تھے جب ٹاؤن ہال کے نصف ملازمین کو کام سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس واقعے کی تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ میونسپل ٹاؤن ہال کا عملہ ڈیوٹی کے اوقات میں ایک فلم میں کام کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔

اسی سال کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ روم کے تقریبا ایک چوتھائی ملازمین کسی ایک وقت پر کام سے غائب رہے تھے۔

یہی نہیں بلکہ 2014 میں اطالوی دارالحکومت کے بیشتر سٹی پولیس اہلکار نئے سال کے موقع پر بیماری کا بہانہ کر کے رخصت پر چلے گئے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نے اس واقعے پر تنقید کی تھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا