جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا صدر پاکستان کے نام کھلا خط

سرینا عیسیٰ نے اپنے خط میں ان واقعات کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔

سرینا عیسیٰ آج کل سپریم کورٹ آف پاکستان کے دس رکنی بنچ کے سامنے اپنے شوہر کی نظر ثانی درخواست میں اپنے اثاثوں سے متعلق دلائل دے رہی ہیں (سکرین گریب)

سپریم کورٹ کے سینئیر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ 2016 میں ان کے شوہر کی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مرتب کی گئی تجاویز پر عمل درآمد نہ ہونے کو قرار دیا ہے۔ 

سرینا عیسیٰ نے جمعے کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں  کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کوئٹہ انکوائری کمیشن کی تجاویز پر عمل کر کے بدھ کو کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے اور دوسرے کئی ایسے واقعات کو روکا جا سکتا تھا۔

یاد رہے کہ اگست 2016 میں کوئٹہ کے ایک سینئیر وکیل بلال انور کاسی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تھی اور جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں وکلا کی بڑی تعداد جمع ہو گئی، اس موقع پر وہیں پر ایک خود کش دھماکہ ہوا جس میں وکلا کی بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوگئی تھی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا اور بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اسرار پر اس مخصوص واقعے اور دہشت گردی کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل کوئٹہ انکوائری کمیشن بنایا تھا۔

کوئٹہ انکوائری کمیشن نے چند ماہ بعد ایک جامع رپورٹ پیش کی تھی جس میں بلال انور کاسی کے قتل اور اس کے بعد ہونے والے خود کش حملے میں ملوث گروہ اور افراد کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں جبکہ ملک میں اس وقت جاری دہشت گردی کی کاروائیوں کے روک تھام کے لیے بھی تجاویز پیش کی گیی تھیں۔

سرینا عیسیٰ نے اپنے خط میں ان واقعات کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادری کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔

’ایک اکیلا جج تو جرم ہونے کے بہت عرصے بعد اس میں ملوث لوگوں کا سراغ لگانے میں کامیاب رہتا ہے، لیکن صدر صاحب انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت سارے وسائل ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکیں۔‘

خط میں سرینا عیسیٰ نے کوئٹہ خود کش حملے کے بعد سرکاری ایمبولینسز کے تاخیر سے پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے رضاکارانہ طور پر کام کیا، این جی اوز کی ایمبولینسز بروقت وہاں موجود تھیں، جبکہ جائے وقوعہ کا کینٹونمنٹ کے علاقے میں ہونے کے باوجود فوج کی ایمبولینسز بروقت نہ پہنچ پائیں۔

’مجھے خود ساختہ وی آئی پیز کے قافلوں میں نئی اور جدید ترین ایمبولینسز، جو صرف ان کے لیے استعمال ہوتی ہیں، کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ جناب صدر آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ اسلام میں کوئی وی آئی پی نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ سرینا عیسیٰ آج کل سپریم کورٹ آف پاکستان کے دس رکنی بنچ کے سامنے اپنے شوہر (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی نظر ثانی درخواست میں اپنے اثاثوں سے متعلق دلائل دے رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک کرپشن ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا، جس کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے جج نے اعلیٰ عدالت میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

انسداد دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے خیال میں 2016 کی کوئٹہ انکوائری رپورٹ کا تعلق ایک مخصوص واقعے سے تھا اور یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ اس میں موجود تجاویز پر عمل کیا جاتا تو دہشت گردی قابو میں آ جاتی۔

آئی جی پولیس کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ذوالفقار چیمہ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے ہی پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور اداروں نے کئی کمیشنز کی رپورٹ پر عمل درآمد کیا جن کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والوں کی استعداد میں اضافہ ہوا اور وہ دہشت گردی کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوئے۔

’یہ جو پولیس اور دوسری فورسز کی استعداد بڑھی ہے تو ان کی تجویز کسی نہ کسی نے دی تھی اور اس پر عمل کیا گیا اور آج چیزیں بہتر شکل میں موجود ہیں۔‘

سندھ پولیس کے سابق سربراہ افضل شگری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پولیس ریفارمز کمیٹی کی تجاویز پر عمل ہوا جس کے نتیجے میں پولیس کی تحقیقاتی استعداد بہتر بنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اصلاحات کے نتیجے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحقیقات میں استعمال کرنے کے لیے جدید آلات فراہم کیے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان