سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ اپنی جاسوسی سے تنگ آ چکی ہیں۔
انہوں نے جمعے کو میڈیا کو ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) نے میڈیا کو وہ باتیں جاری کیں جو انہوں نے کہی ہی نہیں۔ 'میں اس معاملےمیں دوسرے لوگوں کو گھسیٹنا نہیں چاہتی لیکن میں اپنی جاسوسی سے تنگ آچکی ہوں۔'
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور تضحیک کی جا رہی ہے۔ 'میرے خلاف جھوٹا پروپیگینڈا کیا جا رہا ہے، مجھ پر الزام لگایا جارہا ہے کہ میں نوٹس وصول نہیں کررہی۔'
انہوں نے واضح کیا کہ 25 جون کو جب نوٹس جاری ہوا تو اسی روز ان کے والد کی وفات ہوئی تھی۔ 'میری رہائش گاہ پر میرے سٹاف کی موجودگی میں نوٹس چسپاں کیا گیا، جس سے میں نے خود کو مجرم محسوس کرنا شروع کر دیا۔ 'ایف بی آر میں جمع کرائے گئے میرے جواب کا متن میڈیا کو غلط طور پر جاری کیا گیا، ان سب باتوں کے بعد مجھے مجبوراً اس جواب کی کاپی میڈیا کو بھی جاری کرنی پڑ رہی ہے۔'
انہوں نے ایف بی آر کو جمع کرائے گئے چھ صفحات پر مبنی بیان میں کہا کہ انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں سُنا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد انکم ٹیکس سے متعلق سوال نہیں پوچھا جا سکتا، اگر ایسا ہے تو ایف بی آر کو چاہیے کہ ان کی اس حوالے سے رہنمائی کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں 2018 کا انکم ٹیکس نوٹس کیوں بھیجا گیا، جس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کیونکہ متعلقہ پراپرٹی 2004 اور پھر 2013 میں لی گئی تھی۔
سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر کے جانب سے چسپاں کیے گئی نوٹس کے الفاظ پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اس میں بے معنیٰ الفاظ استعمال کیے گئے ۔ 'میں سب معلومات فراہم کر رہی ہوں ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس بات کی قانون اجازت نہیں دیتا میں ایف بی آر کو سوال پوچھنے کی اجازت دوں گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر وہ اور ان کے بچے جائیداد چھپانا چاہتے تو آف شور کمپنی خرید لیتے اور اپنا نام چھپا لیتے۔ 'اگر یقین نہیں آتا تو عمران خان اور اُن کے رفقا سے پوچھیں کہ کیسے انہوں نے بیرون ملک بے نامی جائیدادیں بنائی۔ جائیدادوں کی ملکیت چھپانے کا عمران خان اور ان کے رفقا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نے تو اپنی تمام تفصیلات ایف بی آرکو فراہم کردی ہیں۔ کیا ایف بی آرعمران خان سے پوچھ سکتا ہےکہ وہ مجھ سے کم ٹیکس کیوں دیتےہیں؟ مجھ پر عمران خان کے ساتھی میڈیا پر آکر کردار کشی کرتے ہیں۔ مجھ سے کم ٹیکس دینے والے عمران خان کس طرح 300کنال پر مشتمل محل جیسی قیمتی جائیدادیں رکھ اوران کا خرچ برداشت کرتے ہیں؟'
انہوں نے کہا کہ کیا ایف بی آر یہ پوچھ سکتا ہے کہ عمران خان، مرزا شہزاد اکبر،فروغ نسیم اور انورمنصورخان نے کیسے غیرقانونی طور پر میرے ٹیکس ریکارڈ حاصل کیے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر بیان میں مزید کہا کہ گذشتہ ایک سال سے ان کے ساتھ مجرم جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔' کیا ایف بی آر مجھے عمران خان، عبد الوحید ڈوگر، مرزا شہزاد اکبر، انور منصور خان اور فروغ نسیم کے ٹیکس گوشوارے دے سکتا ہے؟ کیا عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بیویوں اوربچوں کی تفصیلات فراہم کیں؟ عمران خان اوران کے قریبی ساتھیوں کا ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا جائے کہ انہوں نے کب ٹیکس دینا شروع کیا۔'
سرینا نے مزید کہا کہ ایف بی آر نے ان سے منی ٹریل مانگی ہے، 'مجھے نہیں علم کہ اس منی ٹریل سے ایف بی آر کا کیا مقصد ہے؟ ایف بی آر اِنکم ٹیکس آرڈیننس میں مجھے یہ بات لکھی ہوئی دکھا دے تاکہ میں قانون کے مطابق اس کو سمجھ کر مزید جوابات فراہم کرسکوں۔
انہوں نے ایف بی آر کو دیے گئے جواب میں امید ظاہر کی کہ 'بطور ایف بی آر اعلیٰ افسر آپ عمران خان کے ساتھیوں کے پروپیگینڈے میں نہیں آئیں گے۔'
سپریم کورٹ نے 19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایف بی آر کو ٹیکس معاملات سے متعلق تحقیقات کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر کے نوٹس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد حکومتی عہدے داروں سے متعلق بھی بات کی ہے لہٰذا انڈپینڈنٹ اردو نے حکومتی موقف جاننے کے لیے وزیراطلاعات شبلی فراز اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔