کرونا وائرس: ’پاکستان سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ پر انحصار نہ کیا جائے‘

کچھ روز سے میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کراچی میں واقع پاکستان سٹیل ملز میں ایک آکسیجن پلانٹ موجود ہے اور اگر حکومت اس پلانٹ کو بحال کرے تو آکسیجن کی طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان سٹیل ملز میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں یہ آکسیجن پلانٹ لگایا گیا تھا (تصویر: پاکستان سٹیل ملز)

کچھ روز سے میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کراچی میں واقع پاکستان سٹیل ملز میں ایک آکسیجن پلانٹ موجود ہے اور اگر حکومت اس پلانٹ کو بحال کرے تو کرونا (کورونا) وائرس کی تیسری لہر کے دوران آکسیجن کی طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ 

ان خبروں کے بعد پیر کو وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں صوبائی کرونا وائرس ٹاسک فورس کے اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’وفاقی حکومت سے اس پلانٹ کو کھولنے کے لیے بات کی جائے گی اور ایک ٹیم پاکستان سٹیل ملز کراچی میں بند پڑے ہوئے آکسیجن پلانٹ کا جائزہ لے رہی ہے کہ اسے چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بات کا جائزہ لیا کہ کہ پاکستان سٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ کب اور کیوں لگایا گیا اور کیا کرونا وائرس کی وبا کے بعد آکسیجن کی بڑھتی ہوئی طلب کے نتیجے میں اس پلانٹ کو دوبارہ کھولنا ممکن ہے؟ 

پاکستان سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ پر کئی سال تک مینٹی نینس انجینیئر کی حیثیت سے کام کرنے والے عامر حسین خطیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سٹیل مل میں لوہے سے سٹیل بنانے کے لیے پہلے پگ آئرن بنایا جاتا ہے، جسے سٹیل میں ڈھالنے کے لیے آکسیجن کا ستعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان سٹیل ملز نے یہ پلانٹ اپنی ضرورت کے لیے بنایا تھا، مگر چھ سالوں سے بند اس آکسیجن پلانٹ کو کرونا وبا کے بعد آکسیجن کی طلب کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ کھولنے کے اعلانات عجیب ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جب پاکستان سٹیل ملز کو خسارے دکھا کر بند کیا گیا تو کہا گیا کہ اب جب سٹیل ملز ہی نہیں چل رہی تو آکسیجن پلانٹ کیوں کھلا ہو؟ اس لیے اس پلانٹ کو بھی 2015 میں بند کردیا گیا۔ جس وقت اس کو بند کیا گیا تھا اس وقت بھی اس کی کیپیٹل ریپیئر یعنی بڑے پیمانے پر مرمت کا کام رہا ہوا تھا، جو کافی عرصے سے نہیں ہوا تھا۔‘

بقول عامر حسین خطیب: ’اگر حکومت اس پلانٹ کو کھولنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اس کی کیپیٹل رپیئر ہونی ضروری ہے۔ یہ فرانس کی ایک کمپنی کا بنا ہوا پلانٹ ہے اور کیپیٹل رپیئر کے لیے فرانس سے اسی کمپنی کے ماہرین آئیں گے۔ وہ پورے پلانٹ کو کھولیں گے، پھر دیکھیں گے کہ کس حصے کی مرمت ہوگی یا کون سا پرزہ مکمل طور پر نکال کر نیا لگایا جائے گا۔ اس کام میں کم از کم ایک مہینہ لگ سکتا ہے اور میرے اندازے کے مطابق اس کی مرمت پر ایک ارب روپے کی لاگت لائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’اس وقت کرونا وبا کے باعث جب عالمی نقل و حرکت پر پابندی ہے، ایسے میں فرانس کے ماہرین پلانٹ کی کیپیٹل ریپئر کے لیے آسکیں گے یا نہیں؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ کیا حکومت اتنے مرمت کی رقم خرچہ کرسکتی ہے؟ مجھے تو یہ اعلانات سن کر ہی ہنسی آ رہی تھی۔ یہ پلانٹ میڈیکل آکسیجن کے لیے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اگر یہ چل بھی جائے تو اس پلانٹ پر کرونا صورت حال کے لیے انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت ہسپتالوں کی سطح پر آکسیجن کی پیداوار کا بندوبست کرے تو بہت ہوگا۔‘

عامر حسین خطیب کے مطابق اس پلانٹ میں 250 ٹن یومیہ آکسیجن بنانے والے دو یونٹ ہے اور یہ پلانٹ روزانہ 500 ٹن آکسیجن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

1973 میں بننے والی پاکستان سٹیل ملز میں 1980 کی دہائی کے اوائل میں یہ آکسیجن پلانٹ لگایا گیا تھا۔ یہ پلانٹ فرانس کی کمپنی ایل ایئر کا تیار کردہ ہے، جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کو ہوا سے کشید کرنے کے لیے ایئر سیپریشن کے دو یونٹ لگے ہوئے ہیں۔

اس پلانٹ میں تیار کردہ آکسیجن کی بڑی مقدار سٹیل ملز میں ہی استعمال کی جاتی تھی۔ سٹیل ملز کے ان کنورٹر جن میں پگھلے ہوئے لوہے کو سٹیل میں ڈھالا جاتا ہے، ان میں آکسیجن کو چھوڑا جاتا تھا تاکہ آکسیجن کنورٹر میں حرارت کو دوگنا کرکے سٹیل بنانے میں مدد کرے جبکہ نائٹروجن گیس کولڈ رولنگ مل میں دفاع کرنے والے اور صفائی کرنے والی گیس کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ 

پاکستان میں مارچ 2021 کے وسط سے جب کرونا وائرس کی تیسری لہر نے زور پکڑا تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آکسیجن کی طلب میں زبردست اضافہ آیا، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ 

چند روز قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور پاکستان میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے نگراں ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے اپنے ایک بیان میں خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے کچھ عرصے میں ملک میں آکسیجن کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، کیوں کہ اس وقت ملک میں پیدا ہونے والی آکسیجن کا 90 فیصد زیر استعمال ہے۔

انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر شہریوں نے کرونا وائرس کی سنگینی کو سنجیدہ نہیں لیا تو پاکستان میں بھی بھارت جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔

آکسیجن کیسے بنائی جاتی ہے؟ 

آکسیجن ہوا اور پانی دونوں میں پائی جاتی ہے۔ ہوا میں آکسیجن 21 فیصد اور نائٹروجن 78 فیصد پائی جاتی ہیں۔ انسانی ضرورت کے لیے آکسیجن عام طور پر ہوا سے کشید کی جاتی ہے۔ 

آکسیجن پلانٹ میں ایئر سپریشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں ہوا کو پائپ سے پلانٹ کے ایک حصے میں لایا جاتا ہے اور پھر اسے پہلے کمپریسڈ اور بعد میں فلٹر کیا جاتا ہے تاکہ ہوا میں موجود فاضل ذرات کو صاف کیا جاسکے، جس کے بعد کئی مراحل سے گزار کر ہوا سے آکسیجن کشید کی جاتی ہے جو کہ گیس کی صورت میں ہوتی ہے۔ جسے بعد میں منفی 183 ڈگری تک ٹھنڈا کیا جاتا ہے، جس سے وہ گیس کی شکل کی آکسیجن مائع میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جسے کیپسولڈ ٹینکر یا چھوٹے سلینڈروں میں بھر کر سپلائی کیا جاتا ہے۔ 

 میڈیکل استعمال کے علاوہ آکسیجن سٹیل اور دیگر صنعتوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے، اس کے علاوہ جہاز، آبدوز اور خلائی جہازوں میں بھی بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت