عمران خان، بلھا کی جاناں ’ توں‘ کون

سوال یہ ہے کیا ساری وزارتیں، سارے وزیر، اور ساری مشینری ناکام ہو گئی کہ اب ہر شعبے کو آپ نے خود دیکھنا ہے؟ حتی کہ پکوڑوں اور سموسوں کی ریڑھیوں پر آپ نے خود چھاپے مارنے ہیں۔

(عمران خان فیس بک پیج)سوال یہ ہے کہ کرونا ایس او پی کے تحت جب ہفتے اتوار کو اسلام آباد کی مارکیٹیں بند ہوتی ہیں تو وزیر اعظم نے دورہ کہاں کا فرمایا؟ 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں

 

جناب وزیر اعظم نے فرمایا ہے انہیں اپنی کارکردگی پر فخر ہے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں جس پر انہیں فخر ہے کیا اسے ’کارکردگی‘ کہتے ہیں؟

جس طرح فیض کو راہ میں کوئی مقام جچتاہی نہیں تھا اور کوئے یار سے نکلتے تھے تو سیدھے سوئے دار جا کر دم لیتے تھے، ایسے ہی جناب عمران خان بھی اعتدال کے کسی تکلف سے ناآشنا ہیں۔ یا تو اسسٹنٹ کمشنر کی طرح بازار کا دورہ فرمانے چلے آتے ہیں یا پھر سیدھا مسلم امہ کی قیادت کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ رہ گئی وزارت عظمیٰ تو وہ نہ کوئے یارمیں آتی ہے نہ سوئے دار میں، اس کا تکلف اب کون کرے۔

ترقی پذیر اور نیم خواندہ معاشروں میں حکومتیں جب کارکردگی نہیں دکھا سکتیں تو وہ عوام کا جذباتی استحصال کر کے انہیں آسودہ رکھنے کی کوشش کر تی ہیں۔ معاشرے کو باور کرایا جاتا ہے کہ قرون اولیٰ کے متقی حکمرانوں کا زمانہ لوٹ آیا ہے اور ہمارا حکمران عام لوگوں کی طرح خود گاڑی چلا کر مارکیٹ پہنچتا ہے اور رعایا کے مسائل دریافت کرتا ہے۔

خرابی مگر یہ ہوئی کہ کارکردگی کی طرح کارروائی بھی درست انداز سے نہ ’ڈالی‘ جا سکی اور اب تین بنیادی سوال پیدا ہو چلے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کرونا ایس او پی کے تحت جب ہفتے اتوار کو اسلام آباد کی مارکیٹیں بند ہوتی ہیں تو وزیر اعظم نے دورہ کہاں کا فرمایا؟

دوسرا سوال یہ کہ رمضان المبارک کے دنوں میں دن گیارہ بجے سموسے اور پکوڑوں والی ریڑھیاں کہاں سے آ گئیں؟ تیسرا سوال یہ کہ ان ریڑھیوں پر کھڑے بچوں کو ماسک لگانے کی ہدایت کرنے والے وزیر اعظم کو یہ کیوں یاد نہ رہا کہ چائلڈ لیبر کے قوانین پامال ہو رہے ہیں اور انہیں اس جرم پر کارروائی کرنی چاہیے؟

حیرت گد گدا دیتی ہے، کس اعتماد بھرے بھولپن سے وزیر اعظم نے فرما دیا انہیں اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے۔ اس کار کردگی کی شرح تو جناب وزیر اعظم کے اپنے ارشادات میں عیاں ہے۔ جو مسئلہ کھڑا ہوتا فرماتے ہیں اس کوتو میں خود دیکھوں گا۔ معیشت کو تو اب میں خود دیکھوں گا۔ مہنگائی کو تو میں خود دیکھوں گا۔ غربت کے مسئلے کو تو اب میں خود دیکھوں گا۔ آٹے چینی کی قیمتوں کو تو میں خود دیکھوں گا۔

سوال یہ ہے کیا ساری وزارتیں، سارے وزیر، اور ساری مشینری ناکام ہو گئی کہ اب ہر شعبے کو آپ نے خود دیکھنا ہے؟ حتی کہ پکوڑوں اور سموسوں کی ریڑھیوں پر آپ نے خود چھاپے مارنے ہیں۔ نیز یہ کہ آپ کے خو د دیکھنے سے کیا بہتری آئی ہے؟ ملک کا نہیں اس مارکیٹ کا ہی بتا دیجیے جہاں آپ نے ’اچانک دورہ‘ فرمایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا سال ہے اور تیسرا وزیر خزانہ ہے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ پہلے سال کہا جاتا رہا ہمیں معاملات کی سمجھ نہیں رہی ہم ناتجربہ کار تھے۔ پھر ارشاد ہوا ہم نے سیکھ لیا کہ بغیر تیاری کے حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ ابھی تین ماہ پہلے اپنی کابینہ سے کہا جا رہا تھا کہ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ فواد چودھری صاحب جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ٹویٹ کر رہے تھے کہ کیا اس کارکردگی کے ساتھ ہم آئندہ الیکشن میں جا سکتے ہیں۔ لیکن پھر ایک حسین صبح اچانک ہی جناب وزیر اعظم پر انکشاف ہوتاہے کہ نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ ہماری کارکردگی تو اتنی اعلی ہے کہ ہمیں اس پر فخر ہے۔

کسی بھی حکومت کی کارکردگی کوپرکھنے کا آسان طریقہ یہ ہوتاہے کہ اس کے انتخابی منشور کو دیکھ لیا جائے کہ اس نے کیا وعدے کیے تھے اور کیا وہ ان پر عمل کر سکی؟ تحریک انصاف کا انتخابی منشور دیکھنے اس کی ویب سائٹ پر گیا تو معلوم ہوا منشور وہاں سے غائب ہو چکا ہے۔ ایسی چیزیں مگر چھپائے کب چھپتی ہیں، دفتر کی دراز سے ایک نسخہ نکل آیا۔ دیکھیے کیا لکھا ہے؟

منشور میں کہا گیا تھا ہم دس ملین نئی نوکریاں دیں گے اور حقیقت یہ ہے کہ ان ڈھائی سالوں میں بے روزگاروں کی تعداد چالیس لاکھ سے بڑھ کر 70 لاکھ کے قریب ہو چکی ہے۔

وعدہ کیا گیا کہ ہم پولیس کو غیر سیاسی کر دیں گے لیکن پنجاب میں آئی جیز کے یوں ٹرانسفر کیے گئے کہ دیہات کی شادیوں میں مسخرے اب ان تبادلوں پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

سانحہ ساہیوال ہوا تو وزیر اعظم قطر چلے گئے۔ واپس آئے تو اصلاحات کے وعدے کو یوں نبھایا کہ سانحے میں ملوث اہلکار کو ایوارڈ عطا فرما دیا گیا۔

کہا گیا ہم فوجداری نظام میں اصلاحات لائیں گے۔ سو ال یہ ہے اس فوجداری نظام میں کیا اصلاحات لائی گئیں؟ منشور میں اصلاحات کا لفظ 46 بار استعمال کیا گیا لیکن کہیں کوئی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہوں تو بتا دیجیے۔

وعدہ یہ تھا کہ ہم پرانے قوانین میں ترمیم کریں گے اور ہوا یہ کہ ضابطہ دیوانی میں بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز اور پارلیمان، کسی سے مشاورت کیے بغیر ایسی لایعنی قانون سازی کی گئی کہ عدالت نے اسے اڑا کر پھینک دیا ہے۔

دعویٰ یہ تھا ہم کمپرومائز نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے وزارتوں تک اور وزارتوں سے لے کر حلیفوں کے انتخاب تک قدم قدم پر کمپرومائز سے چراغاں ہے۔

کہا گیا ہم سفارت کاری کی دنیا میں نئے باب رقم کریں گے اور عالم یہ ہے کہ کشمیر جیسے معاملے پر بھی دنیا تو کیا مسلم دنیا کی او آئی سی بھی کھل کر ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

کہا گیا ہم بزنس فرینڈلی پاکستان بنائیں گے۔ لیکن ہر وزیر احتساب کا داروغہ بن کرصبح و شام منادی کرنے لگا کہ ہم نے کسی کو نہیں چھوڑنا۔ بزنس تو خاک ہونا تھا، کاروباری طبقے میں خوف سرایت کر گیا اور جہاں خوف ہوتا ہے وہاں سرمایہ نہیں ہوتا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

کہا گیا ہم سی پیک کو گیم چینجر بنا کر دکھائیں گے اور عالم یہ ہے کہ خود سی پیک دھندلا دکھائی دینے لگا ہے۔

ظفر صہبائی نے کہا تھا:

جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی