پاکستان کے سابق سفیروں کی تنظیم کی جانب سے لکھے گئے خط میں انہوں نے وزیراعظم کے ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے خطاب میں پاکستانی سفارت کاروں کی سر عام سرزنش پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
سابق پاکستانی سفیروں کی ایسوسی ایشن جس میں وزارت خارجہ کے ایک سو سے زیادہ ریٹائڑڈ افسر بھی شامل ہیں،نے اپنے خط میں کہا ہے کہ سفیروں کی سرزنش نامناسب تھی جس کی وجہ ملک کی سفارتی مشنوں کے اس کام کو نہ سمجھنا ہے جو وہ بڑی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود کر رہے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں ہمیشہ خامیاں موجود ہوتی ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہوتی اور جو لوگ حد سے بڑھ جائیں مکمل چھان بین کے بعد ان کا محاسبہ ہونا چاہییے۔مناسب اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کے بغیر پورے ادارے کی مذمت نامناسب اور بلاجواز ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پانچ مئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں سے خطاب کیا تھا جسے سرکاری ٹیلی ویژن نے برا ہ راست نشر کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں سفیروں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ'پاکستانی سفارتخانے جس طرح چلائے جا رہے ہیں وہ اس طرح نہیں چل سکتے۔اس قسم کا نظام برطانوی سامراج کے دور میں تو چل سکتا ہے لیکن آج کے پاکستان میں یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔'
وزیر اعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے سٹیزن پورٹل پر کی گئی شکایات بھی پڑھ کر سنائیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سفارت خانوں کا اولین مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمت کرنا ہے اور اس کے بعد انہیں ملک میں سرمایہ کاری لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
وزیراعظم نے ہمسایہ ملک بھارت کے سفارت خانوں کی مثال بھی دی اور کہا کہ پاکستانی سفارت خانوں کے مقابلے میں بھارتی سفارت خانے اپنے ملک کے لیے سرمایہ لانے کے لیے بہت زیادہ متحرک ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں سعودی سفارتخانے کے بارے میں پریشان کن اطلاعات مل رہی تھیں ۔بدقسمتی سے پاکستانی سفارت خانوں کا اپنے شہریوں سے مناسب رویہ نہیں ہوتا۔
آٹھ مئی کو سفیروں کی تنظیم کی جانب سے بھیجے گئے خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ'جناب وزیراعظم آپ جانتے ہیں کہ وزارت خارجہ میں صرف پانچ سو افسر ہیں ۔ ان میں سے تقریباً180 اسلام آباد میں واقع دفتر خارجہ یا کراچی،کوئٹہ،پشاور اور لاہور میں اس کے دفاتر میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ باقی رہ جانے والے تقریباً 320 افسروں کو 120 بیرونی ممالک میں تعینات کیا گیا ہے۔ سفارت خانوں سے کئی طرح کے کاموں کی جو توقع کی جاتی ہے اس کے مقابلے میں افسروں کی یہ تعداد بہت کم ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی قیمتی اثاثہ ہیں جن کی طرف سے بھجوائی ترسیلات زر سے ملکی کمزور معیشت کو سہارا ملتا ہے۔وہ بیرون ملک پاکستانی مشنوں کی طرف سے عزت،دیکھ بھال اور توجہ کے حق دار ہیں۔ ان کے مسائل حل ہونے چاہییں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات اتنی ہی درست ہے کہ افرادی قوت اور دوسرے وسائل کی کمی کے باوجود بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملکی سفارت خانوں کی جانب سے مناسب اور فوری خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ملک جہاں پاکستانی زیادہ تعداد میں ہیں خاص طور پر خلیجی ممالک وہاں قونصلر او ر کمیونٹی ویلفیئر کی خدمات ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن، نادراور وزارت سمندر پار پاکستانیز وغیرہ کی طرف سے تعینات کئے گئے حکام فراہم کر تے ہیں۔
ان کی جانب سے ناقص خدمات کی فراہمی دفترخارجہ یا بیرون ملک موجود اس کے افسروں پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ دوسرے شعبوں سے وابستہ حکام اکثر اوقات سفیر کے ماتحت نہیں ہوتے بلکہ وہ پاکستان میں اپنے محکموں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔اس صورت حال میں سفیر کا کام مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
خط میں وزیراعظم کی ملک میں ملکی سرمایہ کاری لانے اور برآمدات میں اضافے کی خواہش کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستانی مشنوں کو یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنی ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کاروبار کے لیے آسانیوں کے حوالے سے 108 ویں نمبر پر ہے جو مایوس کن ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے کتراتے ہیں جس کی وجوہات کو ہر کوئی اتنا جانتا ہے کہ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
خط کے مطابق: 'ہمیں داخلی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو غیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اپنا سرمایہ، مہارت اور ٹیکنالوجی پاکستان لانے میں رکاوٹ ہیں۔ ہمیں تنوع، معیار اور برآمد کے لائق فاضل مصنوعات کی کمی کا بھی سامنا ہے جو برآمدات کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔'
خط کے آخری حصے میں سفارت خانوں کے افسروں کے رویے کا سامراجی دورکے ساتھ موازنہ غلط قرار دیا گیا ہے۔ خط میں وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'دفترخارجہ کے موجودہ افسروں کو سامراجی دور کی حکمرانی اور اس کے گھٹیا ہتھکنڈوں کا کبھی تجربہ نہیں ہوا۔اسی طرح پاکستانی فارن سروس کا ہمسایہ ملک کے ساتھ موازنہ نامناسب اور بلاجواز ہے جس سے ہمارے نوجوان ساتھیوں کی اتنی ہی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جتنی کہ ہم پرانے افسروں کی ہوئی۔ ہمارے سفیر بھارتی ہم منصبوں سے ہمیشہ کہیں بہتر ثابت ہوئے ہیں۔'
خط میں تجویز دی گئی ہے کہ حاضر سروس سینیئر سفارت کاروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو رکاوٹیں دور کر کے پاکستان کے سفارتی مشنوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سفارشات تیار کرے۔ پاکستانی شہریوں کو قونصلر خدمات کی فراہمی تاخیر کا بڑا سبب پاکستان سے جواب میں تاخیر ہے اس لیے متعلق وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنے ضابطہ کار میں تسلسل پیدا کریں۔ نیز وزیراعظم آفس سے واضح ہدایات جاری کی جائیں کہ تمام متعلقہ وزاتوں کے حکام تمام معاملات میں سفیروں کی اتھارٹی تسلیم کریں ۔فارن سروس کیڈر میں توسیع کی جائے تاکہ وہ اس پوزیشن میں ہوں کہ وہ پاکستان کو درپیش کئی طرح کے چیلنجوں سے نمٹ سکیں جبکہ موجودہ مشنوں سے بڑھتے ہوئے مطالبات پورے کر سکیں۔ اس کے ساتھ مزید سفارتی مشن بھی قائم کئے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب آج وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک پاکستانی سفیروں سے متعلق اپنے ریمارکس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سفارت خانوں اور دفتر خارجہ نے سفارت کاری کے میدان میں بہت اچھا کام کیا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو بہت فائدہ ہوا۔
منگل کو عوام کی ٹیلیفون کالز کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ایسا لگا جیسے میں سارے فارن آفس کو برا بھلا کہہ رہا ہوں، جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفرا سے ورچوئل خطاب میں بعض سفارت خانوں، خصوصا سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی کارکردگی پر تنقید کی، جس پر ریٹائرڈ اور موجودہ سفیروں اور فارن آفس کے اہلکاروں نے مختلف انداز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
ٹیلیفون کالز کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا: ’وہ (سفیروں سے خطاب کا) پروگرام براہ راست نہیں دکھایا جانا چاہیے تھا بلکہ اس کے مخصوص حصے دکھائے جانا چاہیے تھے۔‘
انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ اور سفیروں بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور اسی کام کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر ہوا۔
’ایسا لگا جیسے مین سارے فارن آفس کو برا بھلا کہہ رہا ہوں ایسا نہیں ہے۔‘