ماؤں کے عالمی دن پر اپنی ماں کی یاد

یہ 2019کا مئی ہے۔ میں سات سال کا نہیں بلکہ 32 کا ہوں، مگر آنکھوں کے سامنے سے ماں کے اوجھل ہو جانے کے خوف کی عمر آج بھی سات سال ہے۔

بھارت  کے شہر ممبئی میں ایک ماں سڑک کنارے بچے کو نہلاتے ہوئے۔ تصویر۔اے ایف پی

رات کے وقت طے کیا جانے والا سفر ماضی کی جانب کھلتی ہوئی ایسی کھڑکی ہے کہ ذرا ہاتھ بڑھاؤ تو 25 سال پہلے گاؤں کے کھیت میں لہلہاتا سرسوں کا پیلا پھول توڑ لو اور پھر اسے مسجد والے رہٹ کے احاطے میں پھینک دو اور سر گھُما گھُما کے دیکھو۔

اب سب سے پہلے تو وہ پھول تنگ سے چورس احاطے میں پانی سے بنے تیز تیز گھومتے ہوئے منجدھار میں گول گول چکر کاٹ رہا ہے۔ اس کے بعد وہ  تنگ دہانے سے پانی کے ساتھ بہتے ہوئے باہر بنے حوض میں جا نکلا ہے، جہاں ماں بہت ساری دوسری عورتوں کے ساتھ بیٹھی اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے کپڑے دھو رہی ہے۔

تم بس تیزی سے بھاگتے ہوئے اپنے پھول کا پیچھا کرو۔ ماں کی آواز گونجے گی۔

شوذب چھوہرا۔ چولا پا لئے۔

(شوذب! لڑکے، قمیض پہن لو۔)

بھلا اب قمیض کا کسے ہوش۔ ہمارا پھول تیز تیز تیرتے جا رہا ہے۔ پانی کے اوپر رقص کرتا ہوا، جب بھی پانی سے بھری چھوٹی نالی کسی ڈھلوان پہ تیز ہوگی ہمارا پھول کسی ماہر رقاصہ کی مانند یوں ہچکولے لے گا جیسے انگ انگ میں بجلی بھری ہو۔

پانی کے اس بہتے بہاؤ کے ساتھ کبھی اس کنارے کبھی اُس کنارے دوڑتے جاؤ۔ پہلے پہل پیروں میں مٹی چپکی، پھر جمی، پھر خشک ہوئی اور پھر جھڑ گئی۔ اب مزید تیز دوڑو۔ ڈھیر سارے کھیتوں کا فاصلہ طے ہوگیا ہو تو پلٹ کے رہٹ کی جانب دیکھو۔

بس اب اتنی دور سے ماں نظر نہیں آئے گی، صرف رہٹ  کی اونچی سی برجیاں نظر آئیں گی اور ساتھ بنی مسجد کے مینار۔

یہی وہ ایک لمحہ ہے جسے خوف کہتے ہیں۔ ہائے ماں جو اب نظر نہیں آ رہی۔ اب پھر جو پلٹ کے دیکھو تو وہ پھول کھو چکا ہے۔

تھوڑا دوڑو کہ ممکن ہے کوئی سراغ پا لو مگر اب کہاں۔ وہ نجانے کہاں چلا گیا ہوگا۔ کہیں دور آگے یا کسی کھیت کی جانب نکلتی ہوئی پانی کی کیاری میں سے وہ گندم کے نوزائیدہ پودوں سے جا کر لپٹ گیا ہوگا۔

مجھے اس لمحے شکستہ قدموں کے ساتھ رہٹ کی جانب لوٹ کر واپس آنا یاد آتا ہے۔ جہاں اب جا کر دیکھوں گا تو ماں کپڑے دھو لینے کے بعد خاردار کانٹوں والی ٹہنیوں پہ انہیں خشک ہونے کے لیے ڈال رہی ہوگی۔ مجھے دیکھ کے اس کی آنکھوں میں محبت بھرا غصہ جھلکنے لگے گا۔

تئن میں ہنڑ جئے دھوایا آئی۔ توں وت پنڈا گندا کر آیا ایں۔

(تمہیں میں نے ابھی تو نہلایا تھا۔ اب تم دوبارا اپنا جسم گندا کر آئے ہو)

پہلے تو اس نے میری برہنہ کمر پہ ایک زوردار دھپڑ لگایا اور پھر مجھے کندھے کے پاس سے پکڑ کر ہوا میں اُٹھا لیا اور رہٹ کے ساتھ سیمنٹ سے بنے احاطے کی ایک منڈیر پہ پاؤں رکھتے ہوئے پانی کی تیز بہتی ہوئی دھار کے نیچے کر دیا۔ پانی کا تیز ریلا مجھے سر سے پاؤں تک پورا بھگو گیا۔ اس کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ میری شلوار کا لاسٹک اسے سہار نہیں سکا اور میری شلوار اتر گئی۔

اس شلوار نے وہی کھیل رچایا جو کچھ دیر پہلے سرسوں کے پھول نے کیا تھا۔ اب کی بار سرسوں کا پھول نہیں شلوار تھی اور اس کے پیچھے میں نہیں، ماں تھی۔ میں ننگا کھڑا قہقہے لگا رہا ہوں۔ ماں شلوار کے پیچھے پیچھے پانی کی نالی کے ساتھ بھاگے جا رہی ہے۔

جب وہ رہٹ کی برجی کے پیچھے بھاگتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں یک لخت خاموش ہوکر سہم گیا۔ مجھے ایک بار پھر خوف نےآن گھیرا۔ ماں دور چلی گئی تھی۔ میں ننگا تھا۔

مجھے رہٹ کے وسط میں لگے ہوئے لکڑی کے گول پہیے کے گرد گرد گھومتے ہوئے بیل کے پاس سے نکل کر آتے ہوئے چاچے گامے سے ڈر لگا جو ظہر کی آذان کے وقت وضو کرنے کے لیے اس طرف آ نکلا تھا۔ میں ڈر کے مارے پانی میں ہی بیٹھ جاتا ہوں۔

معزز خواتین وحضرات ! ہم دس منٹ میں سرگودھا پہنچنے والے ہیں۔ بس کی میزبان کی آواز سپیکرز پہ گونجی اور یہ سارا سحر ٹوٹ گیا۔ یہ 2019کا مئی ہے۔ میں سات سال کا نہیں بلکہ 32 کا ہوں۔ مگر آنکھوں کے سامنے سے ماں کے اوجھل ہو جانے کے خوف کی عمر آج بھی سات سال ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ