اقوام متحدہ کا بیان رکوانے پر امریکہ کے شکر گزار ہیں: اسرائیل

اسرائیلی وزیر دفاع نے سلامتی کونسل کا غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے ’غیرمنصفانہ بیان‘ رکوانے پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔

 (اے ایف پی)17 مئی کو شمالی گزہ پٹی میں فائر فائٹر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد میٹرس کی فیکٹری میں لگی آگ کو بھجانے کے لیے سرگرم

اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور بچوں اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دینے کے لیے بیان کو رکوانے پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے پیر کو تیسری مرتبہ اس بیان کا مسودہ مسترد کر دیا جس میں تشدد میں کمی پر زور دیا گیا تھا اور غزہ میں شہری جانوں کے ضیاع اور ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد میں لوگوں کے زخمی ہونے پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔

امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے سرکاری بیانات میں اسرائیل پر تنقید رکوانے کی تاریخ بہت پرانی ہے اور امریکہ اس مقصد کے لیے باقاعدگی کے ساتھ ویٹو کی طاقت بھی استعمال کرتا رہا ہے۔

ایسے وقت میں امید کی جا رہی تھی کہ امریکہ سلامتی کونسل کے اس بیان پر دستخط کر دے گا جس میں اسرائیل اور حماس دونوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مزید ہلاکتیں روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ لیکن ایک ہفتے میں تیسری مرتبہ امریکہ کا کہنا تھا کہ وہ بیان کے الفاظ سے اتفاق نہیں کرے گا۔

یہ ایک ایسا فیصلہ ہے کہ جس نے اطلاعت کے مطابق امریکی اتحادیوں کو سخت حیرت میں مبتلا کر دیا۔

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز پیر کی دوپہر ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں امریکی اقدامات پر اس کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے لکھا: ’میں اخلاص کے ساتھ امریکی انتظامیہ اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، جن کے ساتھ میری اس ہفتے بات ہوئی تھی، کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بجا طور پر اقوام متحدہ کے اس غیرمنصفانہ بیان کو روکا جس میں اسرائیل کے غزہ میں اقدامات پر تنقید کی گئی تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو ہمارے شہری اہداف کو نشانہ بناتی ہے اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ ہمارے مقاصد صرف دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو توڑنا اور اپنے لوگوں کو بچانا ہے۔ اسرائیل پر یہ تنقید منافقت پر مبنی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی لڑائی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔‘

وائٹ ہاؤس نے پیر کو کہا تھا کہ بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی اور جنگ بندی کی ’حمایت‘ کا اظہار کیا۔

امریکی صدر، جو اسرائیل کا بھرپور دفاع کرنے کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا کہ انہوں نے اپنے اس نظریے پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے لیکن انہوں نے دو فریقین کے درمیان تشدد کے مسئلے اور بیت المقدس میں قیام امن کی کوششوں کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔

دو رہنماؤں اور سٹریٹیجک اتحادیوں کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ایسے وقت ہوئی ہے مشرقی وسطیٰ کے اس خطے میں تشدد دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ تازہ تنازعے کی وجہ کئی واقعات ہیں جن میں فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس سے بے دخل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کے خلاف طویل عرصے ہونے والی مخالفت بھی شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک غزہ میں 212 افراد جن میں 61 بچے بھی شامل ہیں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ اسرائیل میں10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو بچے شامل ہیں۔ بیت المقدس میں پولیس اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان رات کو جھڑپیں ہوئی ہیں۔

حماس، جو 2007 سے غزہ کو کنٹرول کر رہا ہے، اسرائیل پر راکٹ حملے کر رہا ہے۔ جدید اور طاقتور اسرائیلی فوج غزہ پر فضائی حملے اور بمباری کر رہی ہے۔

1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے امریکہ اسے دوطرفہ امداد اور میزائل دفاعی نظام کے فنڈ کی مد میں146بلین ڈالر دے چکا ہے۔2019 میں یہ رقم تقریباً چار ارب ڈالر تھی اور حالیہ دنوں میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی تمام امداد فوجی امداد کی شکل میں تھی۔

ایسے میں کہ جب بائیڈن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کی حمائت کی ہے، وہیں بعض ڈیموکریٹک ارکان کی طرف ان پر دباؤ ہے کہ وہ زیادہ سخت لہجے میں بات کریں اگرچہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

بائیڈن کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کوپن ہیگن میں پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ واشنگٹن پس منظر میں رہ کر کام کر رہا ہے۔ ان کے بقول: ’کوئی بھی سفارتی اقدام جس کی بدولت امن کے امکانات بڑھیں ایسی بات ہے کہ ہم اس کی حمایت کریں گے۔ ہم ایسا کرنے کے لیے پھر سے رضامند اور تیار ہیں۔ لیکن بالآخر یہ ذمہ داری دونوں فریقوں کی ہے کہ وہ واضح کریں کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘

لیکن پیر کو امریکہ نے سلامتی کونسل میں چین، ناروے اور تیونس کی طرف سے اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے کی جانب سے بیان کے اجرا کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال دی۔ اس بیان میں لڑائی بند کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

مجوزہ بیان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’غزہ سے متعلق بحران‘ ختم کیا جائے اور شہریوں، خاص طور پر بچوں، کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے پریس کانفرنس سے خطاب میں متحد ہو کر اقدامات کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا: ’میں واقعی دوبارہ کہوں گا کہ سلامتی کونسل کی طرف سے ایک زور دار اور متفقہ آواز بلند کرنے کی ضرور ت ہے جس کا ہمارے خیال میں وزن ہو۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کہا ہے کہ امریکی اتحادیوں کو امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کے مشترکہ بیان کی توثیق سے انکار پر ’یقین نہیں آیا۔‘ نیوز ایجنسی نے ایک سفارت کار کا حوالہ دیا ہے جن کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکہ سے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کے اس بیان کی حمایت کرے جس میں وہی باتیں کہی گئی ہیں جو واشنگٹن کی طرف سے دوطرفہ طور پر کی جارہی ہیں۔‘

 

اس رپورٹ کی تیاری میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے اضافی مدد لی گئی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا