کیا اسرائیل بین الاقوامی قانون سے بالاتر ہے؟

جنرل اسمبلی سے جب اسرائیل کی مذمتی قرارداد پاس ہو جائے تو شاہ محمود قریشی صاحب کو چاہیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے چپکے سے پوچھ لیں کہ ’یور ایکسی لنسی قرارداد تو پاس ہو گئی اب اس کا کرنا کیا ہے؟‘

غزہ کے ساتھ اسرائیلی سرحد پر فوجی غزہ کی پٹی پر گولہ  باری کر رہے ہیں (اے ایف پی )

کیا اسرائیل پر جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادیں لاگو نہیں ہوتیں اور کیا وہ اقوام متحدہ کے چارٹر، قوانین، کنونشنز اور ضابطوں سے بالاتر ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں نہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ابتدائیے میں کہیں لکھ دیا جائے کہ یہ دستاویز ہم جارج آرول کے اینمل فارم کے نام کرتے ہیں، جہاں کہنے کو تو سب برابر ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی برابر ہوتے ہیں۔

جنرل اسمبلی کی جس قرارداد (نمبر 181) کے ذریعے فلسطین تقسیم ہوا اور اسرائیل قائم ہوا، اس قرارداد میں لکھا گیا تھا کہ بیت المقدس ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہو گا۔ یہی بات جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں کہی گئی۔ یہی اصول اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے 1949 میں طے کیا۔ یہی بات Armistice Agreement میں لکھی ہے لیکن اسرائیل بیت القدس پر قابض ہے اور اقوام متحدہ کو ٹھینگا دکھا رہا ہے۔

سلامتی کونسل نے 22 نومبر1967 کو قرارداد ( نمبر 242) منظور کی اور اسرائیل سے کہا وہ بیت المقدس خالی کر دے۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد ( نمبر 2252) میں کہی۔ لیکن اسرائیل نے نہ صرف قبضہ برقرار رکھا بلکہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا۔ اس کے خلاف سلامتی کونسل نے پھر دو قراردادیں پاس کیں۔ جنرل اسمبلی نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا اور سلامتی کونسل نے ایک اور قرارداد ( نمبر 672) میں اس قبضے کو ناجائز قرار دیا۔ 2016 میں ایک بار پھر سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد ( نمبر2334) میں ایک بار پھر اسرائیل کو انٹرنیشنل لا کی صریح خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے یروشلم سمیت تمام مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا لیکن اسرائیل تاحال یروشلم سمیت تمام مقبوضہ جات پر قابض ہے اور انٹر نیشنل لا کہیں دور بیٹھا دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہا ہے۔

اسرائیل کی ناجائز بستیوں پر اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں جن میں اس اقدام کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی بیت المقدس سمیت تمام مقبوضہ جات میں بستیاں بنانے سے باز رہے لیکن اسرائیل یہ کام کیے جا رہا ہے۔ حال ہی میں شیخ جراح میں ناجائزصۃ آباد کاری ہی کا تو جھگڑا تھا اور فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے نکال کر صہیونی بستی آباد کرنا مقصد تھا۔ سوال وہی ہے کہ وہ قراردادیں کیا ہوئیں جو اس اقدام کو نا جائز اور غاصبانہ قرار دے چکیں؟

اسرائیل فلسطین کی ز مین پر قبضہ کرتا ہے اور اپنے شہریوں کو وہاں لے جا کر آباد کر دیتا ہے۔ باوجود اس کے کہ چوتھے جنیوا کنونشن کا آرٹیکل49 واضح طور پر کہہ رہا ہے کسی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں ہو گی کہ اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرے۔ ہیگ ریزولیوشن کے تحت اسرائیل کو کوئی حق نہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں کی زمینوں پر قبضہ کرے اور مالکان کو بے دخل کرے۔ لیکن اسرائیل سب کچھ کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل کرمنل کورٹ اور روم سٹیچوٹ کے تحت یہ کام جنگی جرم تصور ہو گا لیکن اسرائیل اس جرم کا عشروں سے اعادہ کیے جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیل جب غزہ کی شہری آبادی میں تباہی پھیلاتا ہے تو اس کا عذر یہ ہوتا ہے کہ اسے ان علاقوں کی عمارتوں سے حملے کا شک ہے اس لیے یہ جوابی اقدام ہے۔ ’جوابی اقدام‘ میں گھروں کے گھر اور میڈیا کے دفاتر اور پلازے ملیا میٹ ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ کیا ایسی صورت میں انٹر نیشنل لا کوئی رہنمائی فرماتا ہے؟

جنیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 1 کے آرٹیکل 52(3) میں لکھا ہے: ’اس شک کی صورت میں کہ آیا کوئی جگہ جو بالعموم سویلین استعمال کے لیے وقف ہو، جیسے گھر، عبادت کی جگہ یا کوئی رہائشی عمارت یا سکول کسی فوجی کارروائی میں موثر معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے یا نہیں تو تصور کیا جائے گا کہ نہیں ہو رہی۔‘

گویا انٹرنیشنل لا نے گھروں اور عبادت گاہوں کو اس بہانے تباہ کرنے سے روک دیا ہے کہ کوئی طاقتور اٹھے اور شک کی بنیاد پر جس عمارت کو چاہے اڑا دے۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 48 کے تحت حملہ آور ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ سول آبادیوں کو نشانہ نہ بنائے۔ ایڈیشنل پروٹوکول کا آرٹیکل 52 شہری املاک پر حملے کی اجازت نہیں دیتا، پھر غزہ میں آئے روز یہ تباہی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ انٹر نیشنل لا اسرائیل کا ہاتھ کیوں نہیں روک پاتا؟
 جنیوا کنونشن ہسپتالوں اور طبی مراکزپر حملے کی اجازت نہیں دیتا۔ آرٹیکل 19 میں لکھا ہے کہ کسی بھی حالت میں طبی مراکز پر حملے کی اجازت نہیں ہو گی۔ لیکن اسرائیلی حملوں میںبیت الحنون، ہالا الشعوہ اورغزہ میں انڈونیشیا کا ایک ہسپتال اس حد تک تباہ ہو چکے ہیں کہ وہاں طبی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ قطر ہلال احمر کے دفتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق غزہ کے واحد ٹراما اینڈ برن سنٹر پر بھی اسرائیل نے میزائل حملہ کیا ہے۔ غزہ کی کرونا لیب بھی حملے کی زد میں آئی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 18 ہسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے۔

ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن سہولیات ناپید ہیں۔ کرونا کے ٹیسٹ رک چکے ہیں اور یاد رہے کہ غزہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے اور اس میں کرونا کی شرح بہت زیادہ ہے۔ غزہ کے نیورولوجسٹ ڈاکٹرمعین اور کرونا ریسپانس فورس کے سربراہ ڈاکٹر ایمن ابو العوف اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔

شاہ محمود قریشی صاحب فرما رہے ہیں کہ ہم معاملے کو جنرل اسمبلی لے کر جائیں گے جہاں سلامتی کونسل کی طرح کوئی ویٹو نہیں ہو سکتا لیکن کیا ہمارے وزیر خارجہ کو معلوم ہے کہ جنرل اسمبلی نے گذشتہ سال مختلف ممالک کے خلاف مذمت کی 23 قراردادیں پاس کی تھیں جن میں سے 17 قراردادیں سرائیل کی مذمت میں پاس کی گئیں۔ اب بھی جنرل اسمبلی میں ویٹو نہیں ہو گا اور قرارداد آ جائے گی تو کیا ہو جائے گا؟ سلامتی کونسل سے بھی کوئی قرارداد آ جاتی تو کیا ہو جاتا؟

جنرل اسمبلی سے جب قرارداد پاس ہو جائے تو قریشی صاحب کو چاہیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے چپکے سے پوچھ لیں کہ یور ایکسی لنسی قرارداد تو پاس ہو گئی اب اس کا کرنا کیا ہے؟ یور ایکسی لینسی تو شاید پکوڑے بھی نہیں کھاتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ