’موت اتنی قریب سے دیکھی کہ کلمہ پڑھنے کا سوچ لیا‘

شرپسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران سر میں گولی لگنے سے زخمی ہونے والے قلات کے تحصیل دار محمد مسعود بگٹی جیسے سرکاری ملازم بلوچستان میں مشکل حالات اور چیلنجز کے باوجود ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

وزیرِ داخلہ ضیا لانگو اور ڈی جی لیویز فورس مجیب قمبرانی نے  مسعود بگٹی کو بہادری کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا(فوٹو ڈی جی پی آر)

بلوچستان کے ضلع قلات میں منگوچر کے تحصیل دار محمد مسعود بگٹی نے موت اتنی قریب سے دیکھی کہ اپنا آخری لمحہ سمجھ کر کلمہ ہی پڑھ لیا۔

14 اپریل کو رمضان کا پہلا دن تھا اور مسعود ڈیوٹی پر تھے کہ دوپہر کے وقت کسی نے آ کر انہیں علاقے میں اشتہاری مجرموں کے موجود ہونے کی اطلاع دی۔

وہ فوراً اپنے ساتھ لیویز کی نفری لے کر نشاندہی کیے جانے والے علاقے کی طرف روانہ ہوئے۔ علاقے کے محرکات ایسے ہیں کہ جہاں خبر دونوں فریقین کو ایک ہی وقت پر موصول ہوئی۔

جب تک لیویز علاقے میں پہنچی تب تک اشتہاری مجرم مورچے سنبھال کر بیٹھ چکے تھے۔

جیسے ہی مسعود گاڑی سے اتر کر اپنے جوانوں کو احکامات دینے کے لیے جانے لگے ایک گولی ان کے سر کو چھو کر نکل گئی اور ایک چہرے کے بائیں گال کو چیرتے ہوئے گئی جس میں ان کے دانت بھی ٹوٹ گئے۔

مسعود بتاتے ہیں کہ وہ مجرموں کے خلاف آپریشن کے دوران گاڑی میں بیٹھے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لیویز کے جوان کھلے میدان میں کھڑے ہیں، تب تک فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔

’میں اپنے جوانوں کو بچانے  اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے گاڑی کے کور سے نکلا تاکہ ان کو سمجھا سکوں کہ خود کو کور کریں اور علیحدہ علیحدہ کھڑے ہوں۔

’یہ میری ذمے داری تھی کہ میں ان کا افسر ہونے کے ناطے ان کی رہنمائی کرتا۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھنے لگا۔ لیکن گاڑی کے پیچھے سے نکلتے ہی میرے سر پر آکر ایک گولی لگی۔

’میرے سر سے خون رواں ہوا تو مجھے لگا وہ میری زندگی کا آخری لمحہ ہے۔‘

مسعود کو پہلے مستونگ میں ابتدائی طبی امداد دے کر کوئٹہ منتقل کیا گیا جہاں سے بعدازاں انہیں ڈاکٹرز کے مشورے پر کراچی ریفر کر دیا گیا۔

پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں لیویز فورس کا کردار بڑا کلیدی ہے۔

پورا بلوچستان ’ اے‘ اور ’بی‘ علاقوں میں تقسیم ہے، جن میں سے 90 فیصد علاقے ’بی‘ ایریاز ہیں۔

یہ وہ علاقے ہیں جو سکیورٹی کے حوالے سے پسماندہ ہیں۔ یہاں لیویز فورس کام کرتی ہے، جو کمیونٹی فورس تصور کی جاتی ہے۔

اس ضمن میں تحصیلدار ایس ایچ او کے طور پر کام کرتے ہیں اور علاقے کے پرامن ماحول کو قائم رکھنے کی ذمہ داری نبھا رہے ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں لیویز فورس کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی لیویز بلوچستان مجیب الرحمان قمبرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: بلوچستان میں اس وقت لیویز فورس کے 32 ہزار جوان کام کر رہے ہیں اور اس فورس کو وجود میں آئے ہوئے سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔

 

’لیویز فورس کے ذمے امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ اے ڈی آر (الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریسولوشن) بھی ہے، جس میں علاقے کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کا حل اس فورس کے توسط سے حل کرائے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات میں، جہاں دہشت گردی کی لہر چل رہی ہے، کام کرنا بہت مشکل ہے اور اعلیٰ حکام کو لیویز کو مزید سراہنا چاہیے اور انہیں داد دینی چاہیے جو ادارے کے مورال کو بڑھانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبے کے مشکل ترین حالات میں کام کرتے ہوئے خوش قسمتی سے مسعود کی جان بچ گئی۔

انہیں وزیرِ داخلہ ضیا لانگو اور ڈی جی لیویز فورس مجیب قمبرانی نے بہادری کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا لیکن اس واقعے کے اثرات ان کے ذہن پر تاحیات نقش رہیں گے۔

وہ کہتے ہیں ’جو میں نے محسوس کیا وہ کوئی محسوس نہیں کر سکتا۔ مجھے اب بھی وہ لمحہ یاد آتا ہے جب موت میرے سامنے تھی اور مجھے اپنے چھوٹے بچوں اور بیمار والدین کی فکر تھی۔

’میں ذہنی طور پر بہت مضطرب ہوں لیکن اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے اور اپنے صوبے کی خدمت کرنے واپس جانے کو تیار ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا