وادی نیلم میں سیاح اب کیوں نہیں آتے؟

26 فروری کو بالاکوٹ حملےسے پیداہونے والا تناؤ کم ہو گیا مگرپاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم اب بھی سیاحوں کی منتظر ہے۔

وادی نیلم کا ایک خوبصورت منظر

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی علاقے وادی نیلم میں گذشتہ چند برسوں سے فروغ پذیر سیاحت کی صنعت کو حالیہ پاک بھارت کشیدگی سے نقصان کا سامنا ہے۔ 26 فروری کو بالاکوٹ حملے اور اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر پیدا ہونے والے جنگ کے ماحول اور تناؤ میں کمی آ چکی ہے تاہم سیاح اب بھی اس علاقے کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے 2019 کو سیاحت کا سال قرار دے کر خطے میں اس صنعت کے فروغ کے لیے مختلف ثقافتی و تفریحی پروگرام ترتیب دے رکھے ہیں، تاہم اس شعبے سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ رواں سال علاقے میں سیاحوں کی آمد گذشتہ سالوں کی نسبت کافی کم ہے۔

محمد رئیس خان 12 سال سےٹور گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ سالوں میں سردیوں کے موسم میں بھی ہزاروں افراد برفباری دیکھنے آیا کرتے تھے۔ اس سال فروری تک تو سیاح آتے رہے مگر جب حالات خراب ہوئے تو یہ سلسلہ رک گیا۔ ’اس سے پہلےگرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہمارے پاس رمضان اور عید کے دنوں کی بکنگ ہو جاتی تھی مگر اس سال ابھی تک کسی گروپ نے بکنگ نہیں کروائی۔ ایسا لگتا ہے اس سال لوگ کم ہی آئیں گے۔‘

2003 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان بھر سے بڑی تعداد میں سیاحوں نے وادی نیلم آنا شروع کیا۔

14 سال تک حالت جنگ میں رہنے کے بعد امن بحال ہوا تو وادی کی رونقیں لوٹ آئیں۔ سیاحوں کی آمد میں اضافے سے رفتہ رفتہ سیاحت کا شعبہ مقامی لوگوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا۔ 2005 کے زلزلے میں سڑکوں کی تباہی سے رکنے والا سلسلہ 2013 میں نئی سڑک کی تعمیر کے بعد ایک بار پھر شروع ہو گیا۔  

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2014 تک وادی نیلم میں صرف 114 ہوٹل اور گیسٹ ہاوسز تھے 2016 میں یہ تعداد بڑھ کر 312 جبکہ 2018 میں 500 تک پہنچ چکی ہے۔

تاہم یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ ستمبر2016 میں اوڑی حملے اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کے دعوے سے شروع ہونے والے سرحدی تناؤ نے علاقے میں سیاحت کی صنعت پر کمر توڑ اثرات مرتب کیے۔

محکمہ سیاحت کا دعویٰ ہے کہ 2014 میں وادی نیلم میں چھ لاکھ جبکہ 2015 میں لگ بھگ 365500سیاح سیر کرنے آئے۔ تاہم 2016 اور 2017 کے دو سالوں میں سرحدوں پر کشیدگی اور فائرنگ کے تبادلےسے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی کیفیت کے باعث سیاحوں کی تعداد میں 70 فیصد تک کمی آئی۔

البتہ 2018 میں ایک بار پھر سیاحوں کی آمد میں اضافہ دیکھا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2018 میں 41608 گاڑیاں لگ بھگ 251670 سیاحوں کو لے کر وادی نیلم میں داخل ہوئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرکے آنے والے سیاح اس کے علاوہ ہیں۔

محکمۂ سیاحت کی سیکریٹری مدحت شہزاد اس بات سے متفق ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی اور لائن آف کنٹرول کی صورتحال سے اس علاقے میں سیاحت کی صنعت براہ راست متاثر ہوتی ہے تاہم ان کا اصرار ہے کہ اس صورتحال کے باوجود اس شعبے میں ہر آنے والے دن بہتر آ رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہو رہے ہیں۔

محمد رئیس خان بتاتے ہیں کہ 26 فروری کو جب بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ میں بم گرائے تو اس وقت سیاحوں کے درجنوں گروپ وادی نیلم میں موجود تھے۔ انہیں اگلے روز علی الصبح علاقے سے نکلنا پڑا۔ ’برفباری دیکھنے کے خواہشمند سینکڑوں سیاحوں نے اپنے پروگرام ملتوی کر دیے تھے۔‘ اس کے بعد جاری غیر یقینی صورتحال کے پیش نظرسیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

حساس علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے وادی نیلم کے کئی علاقے ابھی تک ٹیلی مواصلاتی نظام سے نہیں جڑ سکے۔ کچھ علاقوں میں ٹیلی فون اور موبائل فون کے علاوہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے تاہم سرحدوں پر تناؤ کے دنوں میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے۔

اٹھمقام سے مقامی صحافی خواجہ فیاض حسین ناکافی ٹیلی مواصلاتی سہولیات اور انٹرنیٹ کی بندش کو بھی سیاحوں کی آمد میں کمی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ 26 فروری کو بالاکوٹ حملے کے بعد سکیورٹی حکام نے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کر دی تھی جسے اڑھائی ماہ کے بعد گذشتہ ہفتے جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔

چند ماہ قبل حکومت پاکستان نے مشروط طور پر غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاحت کی اجازت دی ہے۔ کئی سال سے لاگو پیشگی اجازت نامے یا این او سی کی شرط کو ختم کرتے ہوئے نئی سیاحتی پالیسی کے تحت لائن آف کنٹرول سے کم از کم پانچ کلومیٹر دور علاقوں کو غیر ملکی سیاحوں کے لیے قابل رسائی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم لائن آف کنٹرول کی قربت کے باعث نیلم ویلی ابھی بھی غیر ملکی سیاحوں کے لیے ممنوعہ علاقہ ہے۔

سیکرٹری مدحت شہزاد بتاتی ہیں کہ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے اور مقامی لوگوں خاص طور پر خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے پروگرام پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی ابتدا وادی نیلم سے کی گئی ہے۔ ’ابتدائی طور پر ہم نے دو سیاحتی دیہات کا انتخاب کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ضروری تربیت کے علاوہ بلا سود قرضے دیے جا رہے ہیں تاکہ مقامی لوگ اپنے گھروں کے ساتھ ایک یا دو کمروں کو گیسٹ رومز میں تبدیل کرسکیں۔‘ اس سے نہ صرف سیاحوں کی رہائش کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ لوگوں کو روزگار میسر آئے گااور آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ ’اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس طرح کے منصوبے دوسرے علاقوں میں بھی شروع کیے جائیں گے۔‘

اس کے علاوہ حکومت نے محکمہ پولیس کے اندر ’سپیشل ٹورزم فورس‘ کا قیام عمل میں لایا ہے جس کا مقصد سیاحوں کی حفاظت اور انہیں مناسب راہنمائی فراہم کرنا ہے۔

محکمہ سیاحت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات اپنی جگہ مگر مقامی لوگ لائن آف کنٹرول پر تناؤ اور غیر یقینی صورتحال کے علاوہ ناکافی مواصلاتی سہولیات اور سڑکوں کی خراب حالت کو سیاحت کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں سمجھتےہیں۔

خواجہ فیاض حسین کہتے ہیں کہ سیاحت کے شعبے سے منسلک لوگوں کا انٹرنیٹ پر براہ راست انحصار ہے۔ سیاحوں اور مقامی ٹور آپریٹرز کے درمیان رابطے کا سب سے موثر ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ ٹور آپریٹر سوشل میڈیا پر مختلف ٹور پیکجز کی تشہیر کرتے تھے اور آنے والے سیاحوں کو درکار معلومات فراہم کرتے تھے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ 'پاکستان میں بیٹھے سیاحوں میں عمومی تاثر یہی ہے کہ شاید حالات ابھی تک خراب ہیں۔'

خواجہ فیاض حسین پر امید ہیں کہ انٹرنیٹ کی بحالی کے مثبت اثرات سیاحت پر بھی پڑیں گے۔


مصنف کا تعارف: جلال الدین مغل اسلام آباد/وادی نیلم میں مقیم کشمیری صحافی ہیں۔ وہ سیاحت اور کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان