سم نکلواتے وقت انگوٹھا لگانے میں احتیاط کیوں ضروری

پشاور پولیس نے ایک گروہ پکڑا ہے جو معروف موبائل کمپنی کی موبائل سمیں غیر قانونی طریقے سے نکال کر مذموم مقاصد کی خاطر فروخت کرتا تھا۔

گرفتار ملزمان اور ان سے برآمد ہونے والی غیرقانونی موبائل فون سمیں (پشاور پولیس)

پشاور پولیس نے ہفتے کو ایک گروہ پکڑا ہے جو ایک معروف موبائل کمپنی کی فرنچائز سے غیر قانونی طور پر موبائل سمیں نکال کر انہیں فعال کر کے مذموم عزائم کی خاطر فروخت کرتا تھا۔

کیپٹل سٹی پولیس پشاور کے مطابق گرفتار ملزمان جعلی فنگر پرنٹس، جعلی انگوٹھوں اور بے نامی اکاؤنٹس جیسے غیر قانونی کاموں میں ملوث تھے۔

چاروں ملزمان کو عدالت میں پیش کر دیا گیا، جہاں ان  پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 419، 420، 468 اور تحفظ الیکٹرونک جرائم ایکٹ کی دفعات 13 سے 17 کے تحت دھوکہ دہی، ناجائز طریقے سے سم جاری کرنے اور ذاتی معلومات عام کرنے کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر(سی سی پی او) احسن عباس نے اتوار کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کو جعلی بینک اکاؤنٹس اور جعلی موبائل سموں سے ہوئے جرائم کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں، ‘جس کی تہہ تک پہنچنے اور اصل مجرمان کو پکڑنے کے لیے پولیس ایک عرصے سے گھات لگائے بیٹھی تھی۔‘

انہوں نے کہا ’ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح بائیومیٹرک نظام ہونے کے باوجود کوئی جعلی سم اور قومی شناختی کارڈ حاصل کر سکتا ہے۔‘

سی سی پی او نے بتایا کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے جن کے ذریعے ماسٹر مائنڈ اور ان کے دیگر ساتھیوں تک پہنچنے میں آسانی ہو گی۔

انہوں نے امید ظاہر کی ان گرفتاریوں کے بعد آئندہ اس قسم کے جرائم میں کمی آ جائے گی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ عوام کو بھی اپنی شناختی معلومات دینے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

ملزمان کو کیسے پکڑا گیا؟

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق ہفتے کو تھانہ متنی کو اطلاع ملی کہ مسمیان محمد شفیق، محمد نوید اور بلال غیر قانونی موبائل سموں کے ساتھ ایک مسافر بس کے ذریعے جنوبی اضلاع جا رہے ہیں۔

پولیس نے ناکہ بندی کرتے ہوئے متعلقہ بس کو روکا اور تینوں ملزمان کو نیچے اتارا، جن کے پاس سے مبینہ طور پر سیاہ رنگ کے تھیلوں سے 346 سمیں اور ربر کے 88 جعلی فنگرز برآمد ہوئے۔ ان سموں پر مختلف قومی شناختی کارڈز کے نمبر درج تھے۔

ایس پی صدرڈویژن وقار احمد نے بتایا کہ انہوں نے اتوار کو پریس کانفرنس کے بعد سٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں سے رابطہ کر لیا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ملزمان کے نیٹ ورک کا سراغ لگا کر متاثرہ افراد اور اداروں کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔

‘ہم نے کُل چار ملزمان گرفتار کیے ہیں۔ پوچھ گچھ پر ملزمان نے بتایا کہ انہوں نے ساہیوال کے ایک شخص سے 76 ہزار روپے کے عوض 97 ربر کے جعلی انگوٹھے خریدے تھے۔

’ایک ایک شناختی کارڈ پر 80 اور 100 سمیں نکالی گئیں۔ یوں 346 سموں کا حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ فعال غیر قانونی سموں کی تعداد متذکرہ تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔‘

ایس پی وقار احمد نے مزید بتایا کہ ملزمان غیر قانونی موبائل سم نکال کر اس کو ایکٹیویٹ کر کے کسی بھی ضرورت مند شخص کو ڈھائی سے تین ہزار روپے میں بیچتے تھے۔ سم بیچتے وقت یہ خریدار کو بتاتے تھے کہ یہ ایک مہینے بعد بلاک ہو جائے گی لہٰذا اس سم سے جو کام کرنا ہے ایک مہینے کے اندر کرلیں۔ اسی طرح یہ دھوکہ دہی سے کام چلاتے ہوئے ایک سم بلاک کروا کر اسی شناختی کارڈ سے دوسری سم نکال لیتے تھے۔’

پاکستان میں جعلی انگوٹھے اور غیر قانونی سمیں نکالنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔

اس سے قبل ملک کے دوسرے صوبوں اور شہروں میں بھی ایسے گروہ پکڑے جا چکے ہیں جو سادہ لوح عوام کے انگوٹھوں کے نشانات بنا کر اے ٹی ایم، بے نظیر کفالت پروگرام یا دوسرے طریقوں سے پیسے بٹورتے تھے۔

شناخت چوری ہونے سے کیسے بچا جائے؟

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر کاشف احمد خان مشورہ دیتے ہیں کہ مذکورہ جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ موبائل کمپنیاں ہر شخص کے استعمال میں حد سے حد پانچ موبائل سمز کے علاوہ بلاک شدہ سمز کا ریکارڈ بھی رکھے۔

ایس پی وقار احمد نے کہا کہ اکثر ان مجرموں کا طریقہ واردات یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ بائیومیٹرک انگوٹھا لگواتے وقت کہتے ہیں کہ انگوٹھا صحیح نہیں لگا، لہٰذا صارف سے دوبارہ انگوٹھا لگوانے کے لیے یہ اکثر دوسرا آلہ پیش کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‘ایک نشان یہ اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں اور دوسرا متعلقہ کام کے لیے لے لیتے ہیں لہٰذا یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اگر آپ سے کبھی دوبارہ انگوٹھا لگانے کی درخواست کی جائے تو متعلقہ کمپنی یا ادارے سے تصدیق کی خاطر ثبوت مانگ لیا جائے۔’

انہوں نے بتایا کہ اکثر موبائل کمپنیوں میں ملازمین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ صارفین کی تعداد بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ موبائل سمیں فروخت کریں۔

‘ان کو ہر ماہ ایک ہدف دیا جاتا ہے۔ اسی چکر میں اکثر ملازمین غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سےایک جانب ان کو مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے تو دوسری طرف ملازمت بھی قائم رہتی ہے۔’

جعلی فنگر پرنٹس سے جڑا ایک ایسا ہی واقعہ رواں سال اپریل میں میں پیش آیا تھا، جب ملزمان کا ایک گروہ جنوبی پنجاب کے دیہاتوں میں جاکر عوام سے یہ کہہ کر ایک سفید کاغذ پر انگوٹھوں کے نشانات لیتا رہا کہ وہ حکومت سے ان کے لیے امداد دلوانے میں مدد کرے گا۔

چونکہ ان دیہاتیوں کی نگاہ میں بظاہر انگوٹھا لگانا کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا لہٰذا وہ مالی مدد ملنے کا سوچ کر فوراً ہامی بھر لیتے تھے۔

یوں اس گروہ نے سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے نکالے۔ تاہم بعد ازاں گروہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان