چاند کشمش کی طرح سکڑ رہا ہے: ناسا

ناسا کے سائنس دانوں کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران چاند اندر سے ٹھنڈا پڑ رہا ہے جس کے باعث یہ کشمش کی طرح مرجھا گیا ہے۔

فوٹو، اے ایف پی

کیا آپ جانتے ہیں کہ چاند مسلسل سکڑ رہا ہے اور بھونچالی کیفیت کا شکار ہے، امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا یہی خیال ہے۔

ناسا کے سائنس دانوں کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران چاند اندر سے ٹھنڈا پڑ رہا ہے جس کے باعث یہ کشمش کی طرح مرجھا گیا ہے۔

سکڑنے کے اس عمل سے چاند کی سطح پر موجود چٹانیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں اس عمل کو ’تھرسٹ فالٹس‘ کہا جاتا ہے اور یہ اس کے تمام حصوں کو متاثر کر رہا ہے۔

ناسا سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے نئے تجزئیے کے مطابق چاند آج بھی سکڑ رہا ہے۔

سائنس دان اس عمل کا تقابل کشمش سے کر رہے ہیں کہ کیسے انگور کو سکھانے کے عمل کے دوران اس کی سطح سکڑنے لگتی ہے جس سے اس پر جھریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں لیکن انگور کے برعکس چاند کی سطح لچک دار نہیں ہوتی۔ سخت سطح کے باعث سکڑنے کے عمل کے دوران اس پر موجود چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ اسی باعث اس کی سطح پر مسلسل زلزلے وقوع پذیر رہتے ہیں یوں چٹانوں کے درمیان ارتعاش کا عمل جاری رہتا ہے۔

چٹانوں کے ٹکراؤ سے یہ ایک دوسرے میں دھنس کر ایک ابھار بنا رہی ہیں جو کئی میل بلند ہو سکتے ہیں۔

1960 اور 1970 کی دہائیوں میں چاند پر بھونچالی کیفیت سے حاصل شدہ ڈیٹا سے بنائے گئے الگوریتھم سے یہ نئی تحقیق ممکن ہو سکی ہے جس نے چاند کی سطح پر نئے زلزلوں کو بہتر طور پرسمجھنے میں مدد دی ہے اور اب یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھونجال اصل میں کس مقام پر وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔    

2010 میں ناسا نے قمری مدار میں کیے جانے والے سروے کے بعد چاند کے تمام مقامات کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا گیا تھا جس میں تمام تھرسٹ فالٹس کی تصاویر شامل ہیں۔ اب نئی تصاویر کا ان سے موازنہ کر کے چاند کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

نیچر جیوسائنس میں شائع ہونے والی نئی رپورٹ کے مطابق پرانی اور نئی تصاویر کے موازنے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ چاند اب بھی تغیراتی سرگرمیوں کا سامنا کر رہا ہے.

اپولو کے خلا بازوں کی جانب سے چاند کی سطح پر چھوڑے گئے آلات نے 1977 میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا لیکن سائنسدانوں کو لگتا ہے وہاں ارتعاش اور سکڑاؤ کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔  

میری لینڈ یونیورسٹی میں جیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر نیکولیس شیمر نے ایک بیان میں کہا کہ اپالو مشن کی طرف سے چاند سے بھیجے گئے زلزلوں کے اعداد و شمار اور LRO کی تصاویر میں دکھائی دینے والے فالٹس میں کافی مماثلت پائی گئی ہے۔

’اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ یہ فالٹس آج بھی فعال ہیں۔ آپ زمین کے علاوہ کہیں بھی فعال تغیرات نہیں دیکھتے ہیں، لہذا یہ سوچنا بہت دلچسپ ہے کہ یہ فالٹس آج بھی چاند پر زلزلے پیدا کر سکتے ہیں۔‘

سائنس دان اب چاند پر دوبارہ قدم رکھنے کے لیے پر تول رہے ہیں جو اس بارے میں مزید جانچ کریں گے کہ اصل میں وہاں ہوکیا رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ناسا کو جلد از جلد چاند پرواپسی کا حکم دیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ پانچ سالوں میں خلاباز وہاں موجود ہوں گے۔

جیسا کہ شیمرکا کہنا ہے: ’ہمیں چاند پر واپس جانے کی ضرورت ہے، ہم نے اپالو مشن سے بہت کچھ سیکھا تھا لیکن یہ محض چاند کی سطح پر خراش ڈالنے کے مترادف تھا۔ جدید زلزلہ پیما آلات  کے ایک بڑے نیٹ ورک کے ساتھ، ہم چاند کی سطح کو سمجھنے میں بہت بڑی کامیابی حاصل کر سکیں گے۔‘

’یہ مستقبل میں چاند پر بھیجے جانے والے مشنز اور سائنس کے لیے ثمرآور ثابت ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس