’حیات اللہ کے قاتل نہ پکڑے جائیں، اس کا جرم تو معلوم ہو‘

حیات اللہ کے قتل کی 15 ویں برسی پر ان کے انصاف کے منتظر بھائی تحقیقاتی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا وکیل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

2006 کی اس تصویر میں حیات اللہ کے بچے اپنےوالد کی تصویر اٹھائے انصاف کے منتظر ہیں۔ وہ آج بھی وہیں کھڑے ہیں (اے ایف پی)

16 جون 2006 کا تپتا دن تھا جب تقریباً چھ ماہ سے لاپتہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی حیات اللہ خان کی لاش ان کے گھر کے قریب پھینک دی گئی.

اس واقعے کو 15 برس گزر جانے کے باوجود ان کے خاندان والے انصاف کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

حیات اللہ زمانہ طالب علمی سے روزنامہ اوصاف کے لیے لکھتے تھے اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد روزنامہ دا نیشن کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ قتل ہونے تک دا نیشن ہی سے وابستہ تھے جبکہ ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ بطور فوٹوگرافر بھی کام کرتے تھے۔

انہیں رواں سال مارچ میں یوم  پاکستان کے موقع پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوزا گیا۔ حیات اللہ خان نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سکول جبکہ، بچلرز ڈگری گورنمنٹ ڈگری کالج حیدر آباد سے حاصل کی تھی۔

حیات اللہ کے بھائی احسان اللہ کے مطابق ان کے بھائی کی لاش جب ملی تھی تو ان کے ہاتھ پیچھے بندھے تھے اور کسی نے پیچھے سے گولیاں ماری تھیں۔ ان کے بھائی کے مطابق: ’وہ کمزور دکھائی دیے، ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ انہی کپڑوں میں تھے جن میں انہیں اغوا کیا گیا تھا۔ انہیں پانچ گولیاں لگی تھیں اور یہ لگتا تھا کہ جیسے فرار ہونے کی کوشش کے دوران انہیں پیچھے سے گولی ماری گئی ہو۔‘

حیات اللہ کو پانچ دسمبر 2005 کو اغوا کیا گیا تھا۔ اس سے ایک دن قبل ہی ان کی جانب سے لی گئی ایک تصویر یورپی پریس فوٹو ایجنسی کے ذریعے جاری ہوئی تھی جس میں امریکی ساخت کے اس ہیل فائر میزائل کی باقیات تھیں جس کے حملے میں مصر سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے ایک سینیئر رہنما حمزہ ربیعہ کو شمالی وزیرستان میں ہلاک کیا گیا تھا۔ 

یہ تصاویر اس سرکاری وضاحت سے قطعاً متضاد تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ ربیعہ کی ہلاکت فضائی حملے سے نہیں بلکہ مکان کے اندر موجود بارودی مواد کے دھماکے سے ہوئی تھی۔

حیات اللہ کے اغوا کے بارے میں کئی افواہیں گردش میں رہیں کہ وہ طالبان، امریکی یا قانون نافذ کرنے والی پاکستانی ایجنسیز کی تحویل میں ہیں۔ ان سب نے حیات کی حراست کی تردید کی تھی۔

وزیرستان سے ٹیلیفون پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے احسان اللہ نے بتایا کہ 2006 میں جب ان کے بھائی کی لاش ملی تو اس کے بعد پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے مظاہرے اور قتل کی مذمت کی جس کے بعد اب تک تین تحقیقاتی کمیشن بنے لیکن قاتل معلوم نہ ہوسکے۔

احسان اللہ نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس رضا خان کی سربراہی میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کی درخواست پر اور سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

احسان کے مطابق کمیشن نے حتمی رپورٹ دینے کے وعدے پر ان کے خاندان سے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔ ’کمیشن کے سامنے ہمارے خاندان کے چھ افراد جبکہ صحافیوں میں حامد میر، پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد (جو اس وقت دا نیشن، پشاور کے ایڈیٹر تھے) اور صحافی اقبال خٹک نے بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔ کمیشن نے تحقیقات مکمل کر کے 32 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی لیکن ابھی تک نہ انہیں رپورٹ کی کاپی ملی ہے اور نہ اس رپورٹ کو پبلک کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بعد میں کمیشن کے سربراہ نے ہمیں بتایا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے پر پابندی عائد کی تھی اور بتایا تھا کہ پانچ سال تک اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر نہیں لائے جائے گی۔ لیکن اب 15 سال بعد بھی یہ رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔‘

اسی طرح سپریم کورٹ کے کمیشن کے علاوہ اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا اور پولیٹیکل ایجنٹ شمالی وزیرستان (قبائلی اضلاع کے ضم ہونے سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو پولیٹکل ایجنٹ کہا جاتا تھا) نے بھی حیات اللہ کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا لیکن ان تحقیقات کا بھی احسان اللہ کے مطابق انہیں کچھ معلوم نہیں۔ ’اس حوالے سے کچھ شیئر نہیں کیا گیا ہے۔‘

حیات اللہ کی اہلیہ کی موت

حیات اللہ کی قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے حیات اللہ کے گھر کے پانچ اراکین نے بیان ریکارڈ کرایا تھا جن میں ان کی اہلیہ مہرانسا بھی شامل تھیں۔ نومبر 2007 میں حیات اللہ کی اہلیہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر پر سو رہی تھیں کہ ان کے مکان کی نچلی منزل میں دھماکہ ہوا جس میں وہ جان سے چلی گئیں تاہم بچے محفوظ رہے تھے۔

حیات اللہ کے بھائی احسان اللہ نے اس وقت مکان پر حملے کے حوالے سے بتایا کہ نامعلوم افراد نے نچلی منزل میں بارودی مواد نصب کیا اور ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حیات اللہ کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ تینوں بیٹیاں اور ایک بیٹا اب یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں جبکہ ایک بیٹا جماعت نہم میں پڑھ رہا ہے۔

احسان اللہ نے بتایا کہ حکومت نے حیات اللہ کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کا وعدہ کیا تھا اور 12ویں تک ہر سال حکومت کی طرف سے فنڈ ملتا تھا لیکن اب ان کے تین بچے یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں تو وہ فنڈ بند ہوگیا ہے۔

جس وقت حیات اللہ کو قتل کیا گیا تھا اس وقت ان کے دو بچے گود میں تھے جبکہ ایک کی پیدائش بھی چند روز قبل ہوئی تھی۔ احسان اللہ کا کہنا تھا: ’میں نے پوری کوشش کی ہے کہ حیات اللہ کے بچوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے والدین نہیں ہیں۔‘

احسان نے بتایا: ’میں نے ان بچوں کو اس سارے معاملے سے دور رکھا ہے۔ ان کو میں نے عدالتی کارروائی سمیت اس سارے کیس سے دور رکھا ہے اور ان کو صرف اتنا بتایا ہے کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔‘

رپورٹ کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع

احسان اللہ گذشتہ 15 برسوں سے بھائی کو انصاف دلانے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب رپورٹ پبلک نہیں کی گئی تو جنوری 2020 میں انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں اسے پبلک کرنے کے لیے ایک پٹیشن دائر کی۔

احسان اللہ کے وکیل طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت جب شروع ہوئی تو تقریباً 17 سماعتوں کے بعد اسے خارج کر دیا۔ انہوں نے بتایا: ’عدالت نے پٹیشن خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ کے حکم پر بنا تھا اور ہائی کورٹ سپریم کورٹ کو ہدایت جاری نہیں کر سکتا کہ وہ کسی قسم کی رپورٹ کو پبلک کرے۔‘

احسان اللہ نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے تقریباً دو ماہ پہلے ان کی درخواست کو خارج کیا لیکن وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ ’اس لیے میں نے اسلام  آباد کی صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کیا ہے کیونکہ میں مزید وکلا کی فیس اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا۔‘

احسان نے بتایا: ’میں نے صحافتی تنظیموں کے نام خط میں لکھا ہے کہ وہ مجھے وکیل کر دیں تاکہ میں سپریم کورٹ رپورٹ پبلک کرنے کی درخواست کر سکوں۔‘

احسان اللہ نے بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ ’میرے بھائی کے قاتل پکڑے نہیں جائیں گے لیکن کم از کم ہمیں سکون تو مل جائے گا کہ بھائی کو کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔ یہ باقی صحافتی کمیونٹی کے لیے ایک مثال بن جائے تاکہ مستقبل میں کسی صحافی کے بچے یتیم نہ ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان