اہل صحافت صبح و شام دہائی دیتے ہیں کہ ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے، سوال یہ ہے کیا صحافت اپنے مقام پر ہے؟ کیا دانشوری یہی ہے کہ دوسروں کے دامن کی دھجیوں کو علم بنا لیا جائے، شعلے برساتی زبانوں سے دو انچ نیچے ہی تو اپنا گریبان ہے، کیا آزاد صحافت اس میں جھانکنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟
الیکٹرانک میڈیا نے صحافت کو درویش کا تصرف بنا دیا ہے، ہر دوسرا آدمی یہاں سینیئر تجزیہ کار ہے۔ جونیئر تجزیہ کار تو یہاں پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ایران سے توران تک، سارا علاقہ، ان سینیئر تجزیہ کاروں کی ’تجزیہ گاہ‘ ہے۔ جہاں چاہیں ’دانشوری‘ سمیت خیمہ زن ہو جائیں اور پتھروں پر نقش بنا دیں۔
لفظ کی حرمت روٹھ چکی۔ دست ہنر دست سوال بن گیا۔ اہل دانش کا تعارف اب ان کی علمی اور فکری افتاد نہیں بلکہ ان کا تعارف ان کی سیاسی وابستگی ہے: یہ فلاں کے حصے کا مغنی ہے اور یہ فلاں دربار کا ملک الشعرا۔ چیدہ چیدہ نام ہتھیلی پر رکھ کر گلی میں جائیے، راہ چلتا بھی آپ کو بتا دے گا کہ کس نے کس کی مدح سرائی کی ہو گی اور کس کی ہجو کہی ہو گی۔ دربار سے بلاوا ہو نہ ہو، گداگران سخن کے ہجوم ہر وقت گھوڑے پر زین کس کر رکھتے ہیں کہ بلاوا ہو تو ایک ساعت کی تاخیر نہ ہو۔ یہ بات اب غیر اہم ہو چکی ہے کہ یہ وابستگی مادی ہے یا فکری، ہر دو صورتوں میں نتیجہ ایک ہے۔
وقت نے سب کو روند کر رکھ دیا ہے۔ جنہیں زعم تھا ان کے پاس ’اندر کی خبر‘ ہوتی ہے ان کا زعم بیچ چوراہے میں بکھرا پڑا ہے اور’اندر کی خبریں‘ تعفن دے رہی ہیں۔ جنہیں اپنے تجزیوں پر مان تھا اور جو صبح و شام منادی دیتے تھے بس فیصلہ ہو چکا اور ایک دو ماہ میں ماحول بدل جائے گا، وہ اپنے تجزیوں سمیت پامال ہو چکے۔ خواہش خبر بن گئی ہے اور تجزیہ تعصب سے آلودہ ہو چکا۔ جالب نے کہا تھا: اب قلم سے ازار بند ہی ڈال۔ آج جدھر دیکھیے ازار بند ہی بکھرے پڑے ہیں۔
یہ اعزاز بھی میاں نواز شریف صاحب کے حصے میں آیا کہ قلم فروشی کو انہوں نے صنعت کا درجہ دے دیا۔ سخن فریبوں نے ان کے عہد میں جس طرح مناصب اور خلعتیں پائیں وہ ایک تاریخ ہے۔ اہلیت اور قابلیت تو کیا افتاد طبع بھی نہ دیکھی گئی اور مناصب اور مراتب بانٹ دیے گئے۔ مراعات کی اسی کوزہ گری سے شرافت کی صحافت کی اصطلاح وجود میں آئی اور اس نے جو دھول اڑائی، سماج اب تک اس سے آلودہ ہے۔
سخن فریبی کا یہ فن اب ترقی کر چکا ہے۔ قوس قزح میں اب بیوروکریسی کی صحافت اور پولیس کی صحافت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔ جس بیوروکریٹ کے دسترخوان تک اہل قلم کی رسائی ہے اس کی یہ روز جبیں سائی کرتے ہیں اور جس سے انہیں رہ و رسم نہیں وہ کرپٹ اور بے ایمان ہے۔ پولیس افسروں تک نے گویا اہل دانش رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی فرہاد کے قصیدے پڑھتا رہتا ہے کوئی تیمور کا سہرا کہتا رہتا ہے۔ داغ کے شعر میں جیسے ’اسی شوخ‘ کے مضمون بھرے تھے، سینیئر تجزیہ کاروں کی صحافت کی مانگ میں بھی ’اسی شوخ‘ کے نام کا سیندور لگا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کم علمی کی رعونت کا آزار انتہائی شدید ہوتا ہے۔ یہ حادثہ اس سماج پر صبح و شام بیت رہا ہے۔ معلومات بھلے واجبی سی بھی نہ ہوں، دعویٰ یہ ہے کہ ہماراتجزیہ شراب کہن جیسی تاثیر رکھتا ہے۔ جسے پاکستان کا حدود اربعہ معلوم نہیں وہ امور خارجہ پر قوم کی رہنمائی کر رہا ہے، جس نے ساری عمر بلا نہیں اٹھایا وہ کرکٹ کے کپتان کو مشوورے دے رہا ہے۔ یہ قدرت رکھتے ہیں کہ چار سو کے پراجیکٹ میں سے پانچ سو کی کرپشن برآمد کر لیں۔ کسی شام پروڈیوسرز کی محفل میں جا بیٹھیے اور ان سے سنیے کتنے ہی شوز میں کتنی ہی شخصیات کے دامن کی دھجیاں محض اس جرم میں اڑا دی گئیں کہ ’سینیئر تجزیہ کار‘ اور اینکر پرسن نے فون کیا تھا اور اس کم بخت نے فون سنا اور نہ کال بیک ہی کی۔
دنیا جہان کے ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہے۔ حتیٰ کہ گندم کی فصل بھی اچھی ہو جائے تو وہ ان کے تجزیے کا صدقہ قرار پاتی ہے۔ متعلقہ شعبوں کے ماہرین اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔ مذہب کے بھی یہی ماہر ہیں، معیشت کی زلفیں بھی انہی کے دست قدرت سے سلجھتی ہیں، امور خارجہ پر بھی یہ سند ہیں، قانون پر بھی انہی کا کہا مستند ہے۔ اب کسی ٹاک شو میں کسی پروفیسر، ڈاکٹر، سفیر یا متعلقہ موضوع کے ماہر کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انجمن ستائش باہمی سر شام مل بیٹھتی ہے اور معیشت سے احتساب تک اور امور خارجہ سے تزویراتی امور تک، ہر موضوع ان سے پناہ مانگ رہا ہوتا ہے۔
ٹاک شوز کا معیار دیکھیے اور ان کے موضوعات کا افلاس دیکھیے، حیرت نہیں صدمہ ہوتا ہے۔ کیا سماج صرف سیاست کا نام ہے؟ کیا اختلاف رائے کے یہ آداب ہیں جو ہم ان شوز میں دیکھتے ہیں؟ سماج یہاں کسی کا موضوع ہے نہ ترجیح، ورنہ کوئی ہمیں بتاتا کہ اس غیر معیاری اور سطحی طرز گفتگو نے معاشرے کی نفسیات پر کیا تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ ان ٹاک شوز نے مکالمے کا کلچر تباہ کر دیا ہے ا ور سنجیدہ مباحث کا ذوق چھین لیا ہے۔ میدان اب اس کے نام نہیں رہتا جس کی علمی اور فکری وجاہت اسے ممتاز کرے، یہ اس کے نام رہتا ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت کے باب میں یکساں بے نیاز ہو۔
تو اے اہل چمن! ہماری آزاد صحافت تو یہی ہے۔ اس کی آنیاں جانیاں دیکھتے جائیے اور درازی عمر کی دعا فرماتے جائیے۔