ہمیں ایک میثاق اخلاقیات کی ضرورت ہے

اس حقیقت کا کون انکار کر سکتا ہے کہ لوگوں کے گریبانوں کی دھجیوں کو پتنگ ہم اہل صحافت ہی نے بنایا تھا؟

(اے ایف پی)

سیاست ہو یا صحافت، اخلاقیات کے باب میں خوفناک بے نیازی ہے۔ ہر سو ایک اودھم مچا ہے جو زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اس سماج کو ایک عدد میثاق اخلاقیات کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کیا ہم یہ بھاری پتھر اٹھا پائیں گے؟

اہل صحافت دہائی دے رہے ہیں کہ ہماری کردار کشی ہو رہی ہے۔ یہ دہائی اصل میں اس بات کا نوحہ ہے کہ اس فن کے جملہ حقوق تو ہمارے نام محفوظ تھے، یہ ہمارے حق پر کون گستاخ تصرف کر رہا ہے؟ اس ملک میں شخصی آزادیوں کی جدوجہد ہو یا جمہوریت کی، صحافت کا کردار نمایاں ہے۔ آخری تجزیے میں یہ خیر ہی کی ایک قوت ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ جس رسمِ آتش سے اب اہل صحافت کے پاؤں جل رہے ہیں اس رسم کو اہل صحافت ہی نے اپنی شعلہ بیانی سے امر کیا تھا۔

خیال خاطر احباب سے قلم بوجھل ہونے کا ڈر ہے اس لیے لبوں پر آئے سخن ہائے گفتنی کو ناگفتہ ہی چھوڑ رہا ہوں لیکن اس حقیقت کا کون انکار کر سکتا ہے کہ لوگوں کے گریبانوں کی دھجیوں کو پتنگ ہم اہل صحافت ہی نے بنایا تھا۔

مکالمہ ہماری سماجی قدروں میں سے ایک تھا۔ ٹاک شوز نے مکالمے کو مجادلہ بنا دیا، میدان اب اس کے ہاتھ نہ رہا جس کی دلیل اچھی ہوتی تھی، بلکہ اس کے نام ہونے لگا جو اپنی اور دوسروں کی عزت کے باب میں یکساں بے نیاز ہو۔ سرشام یہاں یار لوگ ٹاک شوز کے نام سے انکویزیشن کورٹ سجا لیتے اور پھرکسی کو امان نہ ملتی۔ زبانِ بے نیام جدھر کا رخ کرتی کشتوں کے پشتوں لگ جاتے۔ ایک وقت آیا کہ لوگ اینکروں کے لہجوں کی تلخی اور رعونت سے بیزار ہونے لگے۔ یہی بے زاری اب رد عمل کی صورت سوشل میڈیا پر ظہور کر رہی ہے تو دہائی دی جا رہی ہے: حد ادب، حد ادب۔ کاش یہ حد ادب اس وقت بھی ملحوظ خاطر رکھی گئی ہوتی جب اہل سیاست کے گریبانوں کی دھجیوں پر ریٹنگ کی عمارت استوار کی جا رہی تھی۔

تجزیہ نگاروں اور صاحبان قلم کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہاں خواہش کو خبر بنایا گیا اور تجزیہ دست سوال بن گیا۔ جالب نے کہا تھا: اب قلم سے ازار بند ہی ڈال۔ یہاں احباب نے جالب کے مشورے پر عمل کو کمال پر پہنچا دیا۔ قاری تحریر اور تجزیے کے تکلف ہی سے آزاد ہو گیا، صاحب قلم کی تصویر دیکھ کر ہی قاری جان جاتا کہ خط میں کیا مضمون باندھا گیا ہو گا۔

کیا یہ کوئی معمولی المیہ ہے کہ اہل دانش کا فکری بانکپن ہی اس سے روٹھ جائے اور سب کو خبر ہو جائے یہ کس کے حصے کا دانشورہے۔ اہل صحافت یہاں سفیر بنے اور مشیر بھی۔ جن کی تعلیمی قابلیت درجہ چہارم کی ملازمت کے لیے بھی کافی نہ تھی وہ اداروں کے سربراہ بنا دیے گئے۔ سماج اگر اہل صحافت پر طعنہ زن ہے تو یہ رویہ بلاشبہ تکلیف دہ ہے لیکن جب آپ آبلہ پا وادی پر خار میں اتریں گے تو کانٹوں سے کیا شکوہ؟

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا معاملہ اور تھا، تحریک انصاف کا معاملہ اور ہے۔ پیپلز پارٹی کا میڈیا ٹرائل ہو تو اس نے ٹاک شوز کا بائیکاٹ کر دیا۔ مسلم لیگ کا معاملہ یہ تھا کہ اسے اپنے دست ہنرپر بھروسہ تھا۔ میڈیا سے سب نے بنا کر رکھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف کا دور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ بات کے ابلاغ کے لیے وہ محتاجی نہیں رہی۔ عمران خان کی کمر پر کرپشن کا ایسا بوجھ نہیں کہ وہ بلاوجہ کی ناز برداری کرے اور بھٹو کے بعد کسی سے اتنا رومان وابستہ ہے تو وہ بھی عمران خان ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے عمران پر تنقید ہوتی ہے تو تحریک انصاف کا سوشل میڈیا وہیں جواب آں ہجو کہتا ہے اور ایسی ہجو کہتا ہے کہ سامعین بھی الامان پکار اٹھتے ہیں۔ تحریک انصاف اپنی اس قوت پر نازاں ہے لیکن سماجیات پر نظر رکھنے والے آگاہ ہیں کہ یہی رویہ تحریک انصاف کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہو گا اور ایک وقت آئے گا سماج اس رویے کو اگل دے گا۔

اہل سیاست بھی اول میڈیا کی ریٹنگ میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوئے اور اس پر نازاں پھرتے رہے۔ اب قیادت کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے کے گریبانوں کے درپے ہیں۔ پارلیمان میں تشریف لاتے ہیں تو سنجیدہ مباحث کا بھاری پتھر اٹھانے کی بجائے یہ دشنام اور الزام کی غزل اور جواب آں غزل شروع ہو جاتی ہے۔ جو آتا ہے اور جس صف سے آتا ہے آگ اگلتا آتا ہے۔ ردیف اور قافیے ملا کر ایک دوسرے کے تذلیل کی جاتی ہے۔ سنگین مسائل پر سنجیدہ گفتگو کا کہیں ذوق ہے نہ ہی استعداد نظر آتی ہے۔ معتبر اب وہ نہیں جس کے دامن سے متانت اور دلیل لپٹی ہو قبیلے کا فخر وہ ہے کہ زباں بکف نکل آئے تو حریف الاماں الاماں پکار اٹھیں۔

ایک بحران ہے جو ہم سے لپٹ چکا ہے۔ معاشرے میں جب اخلاقی بحران آ جاتا ہے توتمام طبقات کو متاثر کرتا ہے۔ اس عالم میں اخلاقیات کے جزیرے آباد نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ایسے جزیروں پر کسی کو امان مل سکتی ہے۔ صحافت اور سیاست دونوں کو رک کر سوچنا ہو گا ان رویوں کا انجام کیا ہو گا۔

ہمیں بطور قوم ایک عدد میثاق اخلاقیات کی ضرورت ہے۔ صحافت اور سیاست اس بھاری پتھر کو اٹھا سکیں تو تبدیلی کا نقش اول کہلائیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ