جانی خیل مظاہرین کا اسلام آباد کی طرف مارچ،تصادم میں نوجوان ہلاک

بنوں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بسم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کم از کم 24 زخمی افراد کو ہسپتال لایا گیا تھا، جن میں تقریباً ایک درجن پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں جانی خیل دھرنے کے شرکا مقامی شخص کے قتل کے خلاف 24 دن دھرنا دینے کے بعد بدھ کو لاش سمیت اسلام آباد روانہ ہوئے تو راستے میں پولیس اور مظاہرین کے مابین تصادم میں مظاہرین میں شامل ایک نوجوان ہلاک جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت دو درجن کے قریب افراد زخمی ہوگئے۔

بنوں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر بسم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دھرنے کے مقام سے ایک لاش ہسپتال کو موصول ہوئی ہے، جس کی عمر لگ بھگ 25 سال ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’گولی نوجوان کے سینے کے آر پار ہوگئی جبکہ لاش کا پوسٹ مارٹم جاری ہے۔‘

ڈاکٹر بسم اللہ نے مزید بتایا کہ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ آج دن دو بجے تک کم از کم 24 زخمی افراد کو ہسپتال لایا گیا تھا، جن میں تقریباً ایک درجن پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جنہیں جسم کے مختلف حصوں پر زخم آئے ہیں۔

اس حوالے سے بنوں پولیس کے ترجمان آصف حسن نے کوئی موقف نہیں دیا اور انڈپینڈنٹ اردو کے استفسار پر بتایا کہ دھرنے میں ہلاکتوں کے حوالے سے ان کے پاس کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

پولیس اور مظاہرین میں تصادم کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی جانب سے شیلنگ کی جا رہی ہے جبکہ ویڈیوز میں کچھ گاڑیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جن کے شیشے ٹوٹ چکے ہیں۔

ایک ویڈیو میں پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکار ایک گاڑی پر لاٹھیاں مارتا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح کچھ تصاویر میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین نے پولیس کے ہیلمٹس پہنے ہوئے ہیں جبکہ پولیس شیلڈ بھی ان کے ہاتھوں میں نظر آ رہی ہیں۔

پولیس کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کے گئے مراسلے میں پولیس کے زخمی اہلکاروں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ مراسلے کے مطابق تصادم کے نتیجے میں رحمان نامی ایک پولیس اہلکار کے بائیں کندھے پر چوٹ آئی ہے جبکہ سید انور شاہ کا سینہ اور معراج خان کا بازو زخمی ہے جبکہ شاہ زمان نامی پولیس اہلکار کی آنکھ زخمی ہوئی ہے۔

پولیس ترجمان آصف حسن نے بتایا: ’پولیس نے تب شیلنگ کی جب مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤشروع کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مظاہرین کی جانب سے پولیس پر فائرنگ بھی کی گئی ہے۔‘ جب آصف سے پوچھا گیا کہ کیا دھرنے کے شرکا کو حکومت کی جانب سے اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے شرکا کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘

یہ دھرنا کیوں ہو رہا ہے؟

ضلع بنوں کا علاقہ جانی خیل گذشتہ کئی مہینوں سے خبروں میں ہے۔ جانی خیل میں ہونے والا یہ دھرنا گذشتہ 24 دنوں سے ایک مقامی شخص ملک نصیب خان کے مبینہ قتل کے خلاف ہو رہا ہے، جنہیں نا معلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔

 اسی طرح جانی خیل ہی میں مارچ میں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے چار نوجوانوں کی لاشوں کی برآمدگی کے بعد بھی دھرنا دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق یہ نوجوان لاشوں کی برآمدگی سے تقریباً تین ہفتے قبل لاپتہ ہوئے تھے۔ لاشیں ملنے کے بعد علاقے کے لوگوں نے دھرنا شروع کیا تھا جو تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہا تھا۔

 تاہم بعد میں حکومتی نمائندوں نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کیے، جس کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں حکومت نے مظاہرین کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ جانی خیل میں امن قائم کریں گے اور مظاہرین کے کچھ دیگر مطالبات بھی مان لیے گئے تھے۔

بعدازاں مئی میں نامعلوم افراد کی جانب سے ایک مقامی شخص ملک نصیب خان کے قتل کے بعد علاقہ مکینوں نے لاش سمیت دھرنا شروع کیا جو 24 دنوں سے جاری ہے اور مظاہرین نے لاش کی تدفین سے انکار کر دیا ہے۔

دھرنا منتظمین میں شامل لطیف وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے 24 دن انتظار کیا کہ حکومت کی جانب سے کوئی مذاکراتی ٹیم آئے گی اور ہم سے مارچ کے دھرنے کے دوران کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے پر بات کرے گی لیکن کسی نے ہم سے نہیں پوچھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لطیف وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے 24 دن انتطار کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور آج (23 جون) صبح ہم نے اپنا لانگ مارچ شروع کیا تو پولیس نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے ہم پر شیلنگ شروع کر دی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے راستے میں کنٹینرز لگا کر ہمارا راستہ بند کیا ہوا جبکہ مظاہرین پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کے نتیجے میں ہمارے دو مظاہرین زخمی بھی ہوئے ہیں۔

 لطیف وزیر کے مطابق: ’ہم نے اسلام آباد مارچ کا فیصلہ اس مقصد کے لیے کیا ہے کہ ہم موجودہ حکمرانوں کو اپنے مشر کی لاش دکھا کر ان سے انصاف کا تقاضہ کریں۔‘

لطیف نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے رکاٹوں کے باوجود ہم پر صورت میں اسلام آباد جائیں گے اور ہمارا واحد مطالبہ یہی ہے کہ مارچ میں حکومت کے ہم سے کیے گئے معاہدے پرعمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان