ایک لڑکی جو اپنے خواب کینوس پر اتارتی ہے

مہوش کی پینٹنگز میں دیکھا جائے تو پرندے، درخت اور آبی حیات کافی حد تک دیکھنے کو ملتے ہیں۔

مہوش ریاض کی قوت سماعت کمزور ہے لیکن آلے کی مدد سے وہ تھوڑا بہت سن لیتی ہیں، ہونٹ پڑھ لیتی ہیں اور اسی کی مدد سے وہ بول بھی لیتی ہیں۔

قوت سماعت کمزور ہے مگر مہوش ریاض میں مصوری کا ہنر اتنا مضبوط ہے کہ انہیں کسی ادارے سے جا کر آرٹ سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

مہوش ریاض کی والدہ مسسز انجم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مہوش کبھی سکول نہیں گئی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ مہوش ایک ہی زبان سیکھے تاکہ انہیں بات چیت کرنے میں آسانی رہے۔

’دبئی میں عربی سکول تھے جہاں بھیج کر وہ انہیں ایک اور زبان سیکھنے کے دباؤ میں نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔‘

مسسز انجم نے بتایا کہ مہوش کے ساتھ انہوں نے اشاروں کی زبان نہ ہی بولی اور نہ ہی انہیں سکھائی تاکہ وہ عام لوگوں کی طرح بات چیت کرنے کا اعتماد حاصل کر سکیں۔

’مہوش کی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اور بہت چھوٹی سی عمر میں انہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مہوش کو مصوری کرنا پسند ہے۔ اسی لیے مسسز انجم نے اس ہنر کو نکھارنے میں ان کی بھرپور مدد کی۔

مہوش ریاض نے انڈپیڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ ان کی تمام پینٹنگز ان کے خیالات ہیں۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by mehwish_art (@mehwish_art)

انہوں نے کہا کہ ’مجھے بہت سارے خواب آتے ہیں جن میں میں جنگل دیکھتی ہوں قدرتی نظارے، درخت، سمندر کے اندر کی زندگی اور پرندے۔ مجھے پرندے بہت پسند ہیں۔ اکثر رات کو جب مجھے خواب دکھتے ہیں تو میں اسی وقت اٹھ کر اپنے خواب کو کینوس پر اتار دیتی ہوں۔ یا پرندے دیکھوں تو فورا انہیں بنا لیتی ہوں۔‘

مہوش کی پینٹنگز میں دیکھا جائے تو پرندے، درخت اور آبی حیات کافی حد تک دیکھنے کو ملتے ہیں۔

مہوش نے بتایا کہ انہوں نے آرٹ کی تعلیم کہیں سے حاصل نہیں کی جو کچھ کیا خود ہی کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والدین اور بھائی میری پینٹنگز کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔‘

مہوش کی بیشتر پینٹنگز میں شوخ رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ زیادہ تر قدرتی مناظر تخلیق کرتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ بڑے کینوس پر کام کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے گھر میں داخل ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی آرٹ گیلری میں داخل ہو گئے ہوں۔ ہر کمرے میں، سیڑھیوں پر، ہر طرف ان کی بنائی تصاویر دیواروں کی زینت بنی ہوئی دکھتی ہیں۔

مہوش نے بتایا: ’جب میں خوش ہوتی ہوں تو شوخ رنگ کی پینٹنگز بناتی ہوں لیکن جب میں زرا افسردہ ہو جاؤں تو میں ہلکے رنگوں کی تصاویر بناتی ہوں۔‘

مہوش کی والدہ نے بتایا کہ دبئی میں مہوش کئی بار اپنی پینٹنگز کی نمائش کر چکی ہیں۔ وہ وہاں آر ٹی کے نام سے موجود ایک آرٹ پلیٹ فارم کے ذریعے کافی جگہوں پر نمائش کرتی رہی ہیں۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by mehwish_art (@mehwish_art)

اس کے علاوہ دبئی کے مختلف ہوٹلوں میں بھی ان کی نمائش لگ چکی ہے۔ دبئی کے سب سے بڑے سالانہ آرٹ فیسٹیول ورلڈ آرٹ دبئی میں مہوش نے حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ مہوش نے راس الخیمہ میں دو تین جگہوں پر بھی اپنی پینٹنگز کی نمائش کی ہے۔

مہوش نے بتایا کہ تمام نمائشوں میں انہیں لوگوں سے بہت اچھا ردعمل ملا۔ ان کی بہت سی پینٹنگز فروخت بھی ہوئیں جبکہ لوگوں نے ان کو آرڈر دے کر بھی اپنی مرضی کی پینٹنگز بنوائیں۔

مہوش کو والدین کے ہمراہ پاکستان آئے نو ماہ گزر چکے ہیں۔ ان کے لیے یہاں سب کچھ نیا ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی تک وہ یہاں آرٹ کے حوالے سے زیادہ کچھ نہیں جان سکی ہیں۔

مہوش ابھی تک نہیں معلوم کرسکی ہیں کہ وہ کہاں اپنی پینٹنگزکی نمائش کر سکتی ہیں یا کوئی ایسی جگہ جہاں جا کر وہ اپنے جیسے مصوروں سے مل سکیں، ان سے بات چیت کر سکیں اور کچھ سیکھ سکھا سکیں۔

لیکن وہ پر اُمید ہیں کہ جلد وہ اس مرحلے سے بھی گزر جائیں گی اور پاکستان میں بھی اپنے کام کی نمائش ضرور کریں گی۔ مہوش کی خواہش ہے کہ لوگ انہیں ایک منجھی ہوئے مصورہ کے طور پر جانیں اور پہچانیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل