بھارت میں سٹریمنگ ڈراموں میں زبردستی جنسی مواد کیوں ڈالا جاتا ہے؟

سوارا بھاسکر کا شو ’رس بھری‘ دیکھ لیں۔ ایک ایسی عورت کا کردار دکھایا گیا جس کی جسمانی خوبصورتی اس کے لیے اپنے چھوٹے شہر میں پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ کیا جسمانی خوبصورتی کی وجہ سے اس کی متاثر ہوتی انا ہی واحد ایسا مسئلہ ہے جو عورت کو درپیش ہوتا ہے؟

بولڈ مناظر، گالیاں، تشدد، اب تقریبا  تمام شوز میں آنا شروع ہوگئے ہیں، خواتین اداکارائیں دوبارہ صرف معاون کردار ادا کرتی نظر آنے لگی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جب او ٹی ٹی پلیٹ فارم (نیٹ فلکس، پرائم ویڈیو) اور ڈیجیٹل ڈراموں کی شروعات ہوئی تو انہیں ان لوگوں کے لیے مسیحا کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو مختلف طرح کی کہانیاں سنانا چاہتے تھے، اور جو لوگ انہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

یہ ان لوگوں کے لیے امید کی کرن تھی جو طویل عرصے سے آرٹ فلموں، تجرباتی شاہکاروں یا ان سے بھی زیادہ توہین آمیز سمجھی جانی والی چیز ’پیرلل سینیما‘ کے پرستار تھے۔

انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق وہ کہانیاں اور مضامین جن سے کمرشل سینیما خوفزدہ تھا یا انہیں ٹیسٹ کرنے سے قاصر تھا، فلم کے وہ اسلوب جو طویل عرصے سے منافع بخش نہیں لگتے تھے، اب نئی امید کے ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر دکھائی دیے۔

تاہم ، پچھلے کچھ سالوں میں یہ ساری خوبیاں محبت، سیکس اور دھوکے جیسے موضوعات میں بدلتی جا رہی ہیں۔

بولڈ مناظر، گالیاں اور تشدد اب تقریباً تمام شوز میں آنا شروع ہوگئے ہیں، خواتین اداکارائیں دوبارہ صرف معاون کردار ادا کرتی نظر آنے لگی ہیں۔

’سیکریڈ گیمز‘، ’مرزا پور‘، ’پاتال لوک‘ یا حتی کہ ’فیملی مین‘ کے پہلے سیزن میں مرکزی کردار مرد تھے۔ بعد میں پھر جب تنقید شروع ہوئی تو ان میں سے بہت سے شوز دوسرے سیزن میں درست سمت چلے گئے۔

زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ خواتین کرداروں پر بننے والی زیادہ تر کہانیاں عورت کی جنسیت ، خاندان کے ساتھ اس کے تعلقات اور حمل یا حیض جیسے حیاتیاتی حقائق پر مرکوز رہنے میں بےحد دلچسپی لیتی ہیں۔

نئی دہلی میں مقیم مصنفہ سرسوتی ٹتار کہتی ہیں کہ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھیں، انہیں یہاں ایک چیز واضح کرنے دیں۔

وہ لکھتی ہیں: ’میں ایک لمحے کے لیے بھی یقین نہیں رکھتی کہ خواتین کو اپنی جنسی خواہشات یا رجحان کی تردید کرنا چاہیے یا انہیں اپنے پیریڈز کے بارے میں کبھی شرم محسوس ہونی چاہیے۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ زیادہ تر خواتین مرد ساتھیوں یا شوہر کی نسبت شاید گھر اور دفتر کے مابین کہیں زیادہ مصروف ہوتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عورت کا مرکزی کردار جب بھی کہیں ہو گا وہ اس کی جنسی زندگی، ماں یا بیوی کے کردار، حیض یا حمل جیسے جسمانی معاملات  پہ گھومتا رہے گا۔ اس سے ہٹ کر دکھانے میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں آپ؟‘

مثال کے طور پر نیٹ فلکس ’بمبئی بیگم‘ لیں۔ کہانی میں پوجا بھٹ ایک ایسی باس دکھائی دیں جو اپنی ماتحت خاتون کی ترقی چاہتی تھیں۔ اب یہ ایک اچھا موقع تھا۔ کارپوریٹ ورلڈ کی مشکلات دکھائی جاتیں، عورتوں کے خلاف دفتری رویوں کی بات ہوتی، بینکنگ سیکٹر میں ان کے مسائل ڈسکس ہوتے، لیکن دیکھا گیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اپنی شادیوں، ذاتی زندگی اور اپنے ہارمونز سے نمٹنے میں کہیں زیادہ وقت گزارتی رہیں۔

’سکیم 1992 ‘ کے برعکس جہاں سٹاک مارکیٹ اور مالی اصطلاحات کی تفصیل پر سخت توجہ دیتے ہوئے ہرشاد مہتا کی کہانی بتائی گئی، ’بمبئی بیگمز‘ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سی ای او کا شادی سے ہٹ کر ایک معاملہ چل رہا ہے جس کے بارے میں وہ جانتی ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی ملازمت ختم کر سکتا ہے۔

ان کی پرجوش سی او او کا شوہر ایک سیکسسٹ ہے جو توقع کرتا ہے کہ خاتون بچہ پیدا ہونے کے بعد اپنے کیریئر کو روک دیں گی۔

ہمیں یہ بتانے کے بجائے کہ وہ کس طرح سے ذاتی طور پر ان مسائل سے نمٹتی ہیں، دکھایا جاتا ہے کہ ان کا بھی ایک رومانی معاملہ ہے جو دفتر کے اوقات میں بھی جاری رہتا ہے۔

اسی سیریز میں نوجوان خاتون انٹرن اپنی بائی سیکشوئل ہونے کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔

چوتھی خاتون ایک سابق ​​سیکس ورکر اور اکیلی ماں ہیں۔ پھر ایک نوعمر لڑکی ہے جو ایک لڑکے کو متاثر کرنے اور اپنی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں پرجوش ہے۔ یہ نوعمر لڑکی سی ای او کی سوتیلی بیٹی ہے، لہذا پوجا بھٹ (سی ای او) مینوپاز اور ازدواجی مسائل کے علاوہ  اچھی ماں بننے کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہے۔

’عجیب داستان‘ نامی سیریز بھی خواتین اور ان کے تعلقات پر ہی توجہ دیتی ہے۔ اس میں بھی زبردستی سیکس سین فٹ کیے جا رہے ہیں۔

امتیاز علی کی بنائی گئی سیریز ’شی‘ دیکھیں، جس میں ایک ایسی خاتون پولیس اہلکار کی کہانی سنائی گئی ہے جو کسی مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے سیکس ورکر بننے کا ڈراما کرتی ہے۔ بھومیکا، جو یہ سب کر رہی ہیں ان کے بہت سے قابل اعتراض مناظر اس شو میں شامل ہیں۔ پھر دکھایا جاتا ہے کہ ان کی دبی ہوئی جنسیت اس تجربے کے بعد بھرپور طریقے سے نکل کر سامنے آتی ہے۔

سوارا بھاسکر کا شو ’رس بھری‘ دیکھ لیں۔ ایک ایسی عورت کا کردار دکھایا گیا جس کی جسمانی خوبصورتی اس کے لیے اپنے چھوٹے شہر میں پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ کیا جسمانی دلکشی کی وجہ سے اس کی متاثر ہوتی انا ہی واحد ایسا مسئلہ ہے جو عورت کو درپیش ہوتا ہے؟

اس رجحان کے مستثنیات بھی ہیں۔ ایمی ایوارڈ یافتہ شو ’دہلی کرائم‘ میں خاتون کا کردار صرف ایک روایتی ہیروئن کا نہیں تھا۔ ایک درمیانی عمر کی خاتون جو اپنے کام کے بارے میں پرجوش دکھائی گئیں۔

’سونی‘ میں اگرچہ دونوں ہی خواتین کے مرکزی کردار گھر اور کام کی جگہ پر پدرسری نظام سے لڑتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں، لیکن اس پروگرام میں اس بات پر پوری توجہ دی جارہی ہے کہ وہ دونوں خواتین اپنے کام میں کتنی ماہر ہیں۔

آریا اور پشپولی دو دیگر شوز ہیں جنہیں بالکل ہٹ کر لکھا گیا اور جن کے موضوعات کا تنوع ہمیں مختلف عمروں اور جغرافیے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے بارے میں بتاتا ہے۔ پھر اس میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے اداکار اور کردار بھی سکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔

کئی سالوں تک رجعت پسند ٹیلی وژن ڈرامے برداشت کرنے اور فلموں کو دیکھنے کے بعد او ٹی ٹی پلیٹ فارمز فنکارانہ صلاحیتوں اور تفریح ​​کے مابین ایک اہم پُل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس نے بہت سارے ایسے ادیبوں، اداکاروں اور ٹیکنیشنوں کو کیریئر بنانے کا موقع دیا ہے جو اس دہائی کے آغاز میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

اب موقع ہے کہ ہم اپنے ناظرین اور عالمی سامعین کے سامنے اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو ظاہر کریں، دکھائیں کہ ہم کتنے اہل ہیں۔

’لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں‘ یا ’کمرشل سینیما کی مانگ یہی ہے‘ کی بجائے اب ہمیں سنجیدہ اور متنوع موضوعات کو تلاش کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین