پاکستان نے چین میں تیار کردہ کرونا ویکسین ’کین سائنو‘ کے تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کے دوران ایک کروڑ ڈالر کمائے ہیں۔
اس بات کا انکشاف کراچی میں ایک تقریب کے دوران نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے سربراہ میجر جنرل اکرام نے کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ بہت سارے ممالک اب پاکستان میں اپنی ویکسین کے ٹرائلز کرنا چاہتے ہیں اور ملکی معیشت کو اس اقدام سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے اسی اقدام کے پیش نظر چین کی کین سائنو بائیو کی شراکت سے ایڈینو وائرس نامی ویکسین کی پیداوار شروع کر دی ہے جس سے سال کے آخر تک تقریباً 3 کروڑ ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے اور دنیا کی کئی بائیو ٹیکنالوجی کمپنیز کے لیے پاکستان میں اپنے ٹرائلز بڑھانے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ، کوریا، جاپان اور چین شامل ہیں۔
میجر جنرل عامر اکرام کے اس بیان کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اور کچھ صارفین نے اس اقدام کو پاکستانیوں پر تجربہ کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
پاکستان نے کین سائنو ویکسین کے کلینکل ٹرائل سے ایک کروڑ ڈالر کمائے
— Dr Humma Saif (@HummaSaif) July 11, 2021
کئی ممالک اپنی ویکسین کے فیز تھری کا کلینکل ٹرائل پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں
(عوام پر) تجربات ہونے سے پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے: میجر جنرل عامر اکرام https://t.co/3PfZT0f2CF
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں پر ویکسین کے تجربے ہوتے رہے اور ان کو اس کی خبر تک نہ تھی۔
یہ اوقات ہے پاکستانی عوام کی اپنی حکومت کی نظر میں۔۔۔آپکے کلینلکل ٹرائیل کئے گئے اور آپکو پتہ ہی نہیں https://t.co/TnQZLwdKqX
— Rukh (@rukhsanaalam) July 11, 2021
ثمینہ نامی صارف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فیز 3 ٹرائلز ویکسین کے آنے سے پہلے لوگوں کی اجازت سے کیے گئے اور میڈیکل سٹاف کی موجودگی بھی لازم تھی۔
ایک اورٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ جو ایک کروڑ ڈالر پاکستان نے ٹرائلز کے دوران کمائے ہیں ان کو مزید ویکسین خریدنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
that $10m should be used to buy vaccines. https://t.co/GdMGTay34Y
— schnabel (@docschnabell) July 11, 2021
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے سات ممالک نے ستمبر 2020 میں چین کی شراکت سے فیز 3 ٹرائلز کا آغاز کیا تھا جن میں دنیا بھر سے 40 ہزار افراد کا ویکسین ٹرائل ہونا تھا، آٹھ سے 10 ہزار پاکستانی بھی ان افراد میں شامل تھے۔