بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کون کرے گا؟

بلوچسستان کے حالات پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور سینیئر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لیے فریقین کا ایک میز پر بیٹھنا ضروری ہے۔

21 اپریل 2017 کی اس تصویر میں بلوچ عسکریت پسند کوئٹہ میں منعقد ایک تقریب میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان میں امن کے لیے بلوچ عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنے کی خواہش کا اظہار تو کردیا، تاہم یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ کون کس سے مذاکرات کرے گا۔ 

اس وقت صوبے کے طول وعرض میں بلوچ عسکریت پسندوں کے مختلف گروہ سرگرم ہیں، جو نہ صرف سرکاری تنصیبات بلکہ ترقیاتی کام کرنے والے غیر ملکیوں سمیت سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ 

وزیر اعظم نے اپنی خواہش کی تکمیل کے دوسرے مرحلے کے لیے نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو مفاہمتی وزیر نامزد کرکے انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی ہے۔ 

بلوچستان کے حالات، مسلح مزاحمت اور معروضی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور سینیئر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لیے دو فریقوں کا ایک میز پر بیٹھنا ضروری ہے۔ تاہم بلوچستان کے حوالے سے اس وقت معاملہ حل طلب اور پیچیدہ ہے۔ 

 سینیئر سیاستدان، متعدد کتابوں کے مصنف اور دانش ور عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے اس بات کا عندیہ تو دے دیا کہ وہ بلوچستان میں امن کے لیے بلوچ عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنا چاہتےہیں، لیکن یہ دونوں اطراف سے واضح نہیں کہ مذاکرات کا مینڈیٹ کس کے پاس ہے۔ 

عبدالرحیم ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلح عسکریت پسندوں کا نمائندہ کون ہے، جس پر وہ اعتماد کرکے اسے مذاکرات کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا: ’بلوچستان کی صورت حال یہ ہے کہ جو مسلح مزاحمت کار ہیں، ان کے مختلف گروپ پیں، جن میں حیر بیار مری، براہمدغ بگٹی، جاوید مینگل اور مہران مری شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ ملک سے باہر ہیں۔‘

اس کے علاوہ بیرون ملک بیٹھے خان آف قلات میر سلیمان داؤد بھی ہیں۔

رحیم ظفر کے مطابق مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین سنجیدہ ہوں اور ایماندارہوں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات حکومت، اسٹیبلمشنٹ یا کون سا ادارہ کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد دوسرے معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ 

رحیم کے بقول: ’دوسری بات یہ کہ کیا مزاحمت کار بھی بات چیت کرنے کے لیے راضی ہیں یا نہیں۔‘ 

ادھر بلوچستان کے ایک مقامی روزنامے نے خبر دی کہ خان آف قلات سیلمان داؤد کے ترجمان نے حکومت کی طرف سے کسی رابطےاور مذاکرات کے حوالے سے خبروں کی تردید کی ہے۔ 

دوسری جانب خطہ مکران، جو چین پاکستان افتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے تمام سرگرمیوں کا مرکز ہے، وہاں سرگرم کالعدم بلوچ عسکریت پسندوں نے بھی مذاکرات کے حوالے سے اپنا رد عمل دیا ہے۔ 

گروہ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ بلوچ قوم واضح طور پر پاکستانی حکومت سے کسی بھی طرح کے مذاکرات کو مسترد کرتی ہے۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر پاکستان پرامن مذاکرات چاہتا ہے تو اسے پہلے بلوچستان سے فورسز کو نکالنا ہو گا اور بلوچ قوم کی خود مختاری کو تسلیم کرنا ہو گا۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ بلوچستان میں جو لوگ بندوق اٹھا کر لڑ رہے ہیں، وہ اپنی قومی شناخت اور الگ آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مذاکرات کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، کیونکہ بلوچستان میں آٹھ سے زائد گروپ کام کر رہے ہیں۔ ’ایسا نہیں کہ ہم نے اللہ نذر،حیر بیار، براہمدغ یا جاوید مینگل سے بات کی اور معاملہ حل ہو گیا۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ڈیرہ بگٹی سے منتخب ہونے والے نمائندے اور موجودہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے بھی نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ ناراض لوگ وہی ہیں جو ریاست کے آئین کے پابند ہیں، دوسرے لوگ دہشت گرد ہیں۔

 سینیئر تجزیہ کار رحیم ظفر کہتے ہیں کہ سابقہ ادوار میں جب ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی اس وقت بھی مفاہمت اور مذاکرات کی کوشش کی گئی تھی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے انہیں بھی بتایا کہ انہوں نے بیرون ملک بیٹھے براہمداغ بگٹی سے ملاقات کی تھی جنہوں نے کوئی بڑا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اپنے علاقے کے بعض مسائل حل کرنے کی بات کی۔ 

رحیم کے مطابق: ’ڈاکٹر مالک بلوچ نے بتایا کہ میں نے براہمداغ بگٹی کو بتایا کہ یہ مسائل تو میں بحیثیت وزیر اعلیٰ حل کرسکتا ہوں۔ تاہم اس دوران براہمدغ بگٹی نے ڈاکٹر مالک بلوچ سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے کتنے بااختیار ہیں۔‘ 

رحیم کے بقول: ’پھر ہم نے دیکھا اور ڈاکٹر مالک بلوچ نے بتایا کہ جب وہ واپس آئے اور انہوں نے اس معاملے پر اعلیٰ حکام سے بات کرنا چاہی تو انہیں کوئی توجہ نہیں دی گئی اور یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں‘۔ 

ایک وفد نے اس وقت خان آف قلات سے بھی بیرون ملک ملاقات کی تھی، جس پر خان آف قلات نے انہیں جواب دیا تھا کہ مجھ سے بات کرنےکے لیے وہ لوگ آئیں جنہوں نے میرے جرگے میں شرکت کی تھی۔ 

رحیم نے بتایا کہ خان آف قلات کے طلب کردہ جرگے میں چیف آف ساروان نواب اسلم رئیسانی، چیف جھالاوان نواب ثنا اللہ زہری، نواب ذوالفقار مگسی اور دیگر لوگ شریک تھے۔ 

کیا ہونا چاہیے؟ 

رحیم ظفر کہتے ہیں: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مسلح مزاحمت کار اور حکومت دونوں مذاکرات کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ نہ وہ اعتماد کریں گے نہ حکومت انہیں کوئی ضمانت دے سکتی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اگر وہ ریفرینڈم کی بات کریں تو شاید حکومت پاکستان اس کو تسلیم کرے۔ ’تو بہترین حل یہ ہے کہ پورے پاکستان یا صرف بلوچستان میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔‘ 

رحیم کے مطابق: ’عام انتخابات کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ انتہائی شفاف اور کسی کے مداخلت کے بغیر کرائے جائیں، اور مزاحمت کاروں سے اپیل کی جائے کہ وہ یا ان کے نمائندے انتخابات کا حصہ بنیں۔‘

انہوں نے کہا: ’ان انتخابات کے نتیجے میں جن لوگوں کوعوام ووٹ دے کر منتخب کریں اور وہ عوام کی طاقت سے سامنےآئیں ان سے پھر مذاکرات کیے جائیں۔‘

رحیم کا کہنا تھا: ’چونکہ اس وقت اعتماد کا فقدان ہے، اگرہم ماضی میں نواب نوروز سے لے کر نواب اکبر خان بگٹی اور ڈاکٹر مالک کے دور میں مذاکرات کو دیکھیں تو ان کا کیا نتیجہ نکلا۔ اس لیے مزاحمت کار حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔‘ 

انہوں نے کہا: ’بلوچستان میں امن کے لیے ضروری ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے۔ یا اس کے علاوہ مسلح مزاحمت کاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے کہ جو ان کے رہنما ہیں ان کے عام معافی ہے وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ بھی ریفرنڈم ہے۔'

ظفر کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور موجودہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

انہوں نے کہا ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت کو جو چھ نکات دیے جن پر اگر حکومت عمل درآمد کرتی تو یہ بھی مذاکراتی عمل کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔

بلوچستان میں برسرپیکار مزاحمت کار تنظیمیں

بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ عسکریت پسند برسرپیکار ہیں، جو نہ صرف سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں بلکہ فورسز پر بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان تنظیموں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

  • بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جس کے سربراہ بشیر زیب بلوچ ہیں۔ جو بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین تھے۔ یہ تنظیم کوئٹہ، کراچی، خضدار، نوشکی، دالبندین، پنجگور، گوادر، حب ، قلات، سبی، کوہلو، تربت، مند، تمپ، زامران، بولان، کاہان،  خاران، مستونگ، پسنی، مشکے، ہرنائی، شاہرگ، مچھ اور واشک میں سرگرم عمل ہے۔
  • بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جس کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہیں، جن کا آبائی علاقہ مشکے ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان کے آواران، مشکے، پسنی، ضلع کیچ، پنجگور، حب، خضدار میں سرگرم ہے۔
  • بلوچ رپبلکن آرمی (گلزار امام گروپ) اس کے سربراہ گلزار امام بلوچ ہیں۔ یہ تنظیم پنجگور، مند، تمپ، زامران، ضلع کیچ اور خاران میں سرگرم ہے۔
  • بلوچ رپبلکن آرمی (براہمداغ بگٹی گروپ) اس کے سربراہ براہمدغ بگٹی ہیں۔ یہ تنظیم ڈیرہ بگٹی، نصیرآباد، سوئی، تمپ اور زامران میں سرگرم ہے۔
  • یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) اس کے سربراہ مہران مری ہیں۔ یہ تنظیم اکثر مستونگ، تمپ،  کاہان، کوہلو، سبی اور خاران میں کارروائیاں کرتی ہے۔
  • لشکر بلوچستان اس کے سربراہ جاوید مینگل ہیں۔ یہ تنظیم خضدار، وڈھ اور حب میں کارروائیاں کرتی ہے۔
  • بلوچ رپبلکن گارڈز ( بی آر جی) اس کے سربراہ بختیار ڈومکی ہیں۔  یہ تنظیم ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، سبی، ڈھاڈر اور لہڑی میں سرگرم ہے۔
  • بلوچ لبریشن آرمی (آزاد گروپ ) اس کے سربراہ حربیار مری ہیں، جو اس وقت لندن میں ہیں۔ یہ تنظیم کوہلو، کاہان اور خاران میں سرگرم ہے۔

بلوچستان میں شورش اس وقت شدت اختیار کر گئی جب بلوچستان کے بزرگ سیاستدان اور بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب اکبر خان بگٹی کو ایک فوجی آپریشن کے دوران تراتانی کے پہاڑوں میں ہلاک کیا گیا۔ 

گو کہ حکومت نے بلوچستان میں امن کے لیے ایک کوشش کا آغاز کردیا ہے، لیکن ابھی تک اس کے طریقہ کار اور متعلقہ فریقین سے بات چیت کرنے کے حوالےسے کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان