جو تیرا پاکستان ہے جو میرا پاکستان ہے

اس شہر کی تقسیم پورے ملک میں دولت، طاقت اور سہولت کی تقسیم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔

چند بچے اسلام آباد میں سڑک کنارے بنائے گئے ایک فوارے میں نہا کر گرمی بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد میں ایک نہیں پانچ اسلام آباد ہیں۔ ایک وہ جہاں مکان بڑے، سڑکیں، فٹ پاتھ صاف اور روشن، پارک سرسبز اور تمام سہولیات سے آراستہ۔ یہاں وہ رہتے ہیں جو مارگلہ کی پہاڑیوں کی ہوشربا قیمتوں والی زمینوں کے مالک ہیں۔

خوش قسمت اتنے ہیں کہ سارے شہر میں گرمی کا راج ہو گا مگر ان کے مکانات پر برکھا چھائی ہو گی۔ شہر کا تمام نظام ان کی خدمت پر مامور ہے۔ ان کے سامنے درختوں پر قُمقُمے، ہر دو کلومیٹر پر فوارے اور آنکھوں کو تراوٹ دینے والے پودے جو ہر موسم میں تبدیل ہوتے ہیں۔

دوسرا اسلام آباد ان سے کچھ فاصلے پر موجود ہے۔ صفائی، ستھرائی، تذئین و آرائش اور علاقے کی دیکھ بحال یہاں بھی بہترین ہیں۔ مگر ادھر سی ڈی اے اور دوسرے اداروں کی توجہ نسبتا کم ہے۔ یہاں پر آ کر آپ کو تھوڑا سا احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ پاکستان کا ہی حصہ ہے۔

گرد و نواح کی کچی آبادیاں اس احساس کو اجاگر کرتی ہیں۔ اگرچہ آپ تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ ان آبادیوں کو برداشت کرنے کا مقصد سستے گھریلو ملازم حاصل کرنے کے علاوہ دیگر آسائشوں کا بندوبست ہی ہے۔ طاقتور طبقات بہرحال یہاں بستے ہیں۔ آپ کو واضح نظر آتا ہے کہ اس اسلام آباد کے مکین اور مکان دونوں اس نظام کے لاڈلے ہیں۔

تیسرا اسلام آباد شہر کے وسط میں چھوٹے مکانات پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کے شہری ہیں مگر انتظامی اور سہولیاتی زاویے سے یہ دوسرے درجے کے مکین ہیں۔ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، اڑتی خاک، مرمت طلب سڑکیں، ٹوٹے ہوئے جھولے اور ٹیڑی پینگیں گواہ ہیں کہ یہ علاقے اصل میں اسلام آباد کے محلے ہیں۔ جہاں پانی نایاب اور وہ توجہ مسلسل غیر حاضر ہے۔ جو ان کے بااثر اور با ثروت ہمسایوں کے نصیب میں ہے۔

تیسرے اسلام آباد کے بیچ کہیں کہیں چار پانچ کنال پر محیط محل نما مکان موجود ہیں۔ جو اسلام آباد کے بنتے ہی تعمیر ہو گئے تھے۔ مگر ان گھروں کی موجودگی کا فائدہ گردو نواح کو نہیں ہوتا۔ چونکہ ان میں رہنے والے اپنا انتظام ویسے ہی کیے ہوئے ہیں جیسے امریکہ نے افغانستان میں بگرام بیس پر کیا ہوا تھا۔ یعنی سب کچھ امریکی مگر سرزمین افغانستان کی۔

ان کو اپنے ارد گرد کے حالات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ اپنی جہاز نما گاڑیوں میں آتے جاتے ہیں اور گھروں میں بنے سویئمنگ پولز میں ڈبکیاں لگا کر آرام سے زندگی گزارتے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جن میں سے بہت سوں کے آسائشوں سے بھرپور فارم ہاؤس اسلام آباد کے مضافات میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح آباد کیے گئے ہیں۔ ان کو چھوٹے مکان اور کمزور لوگ نظر نہیں آتے۔ ماسوائے اس وقت جب ٹریفک کے اشارے پر خدا ترسی بھکاری کے اصرار کی وجہ سے مجبوری بن جائے اور شیشہ اتار کر منہ پھیرتے ہوئے بھیک کی صورت میں کوئی نیکی کرنی پڑے۔

چوتھا اسلام آباد حقیقی عوام پر مشتمل ہے۔ جو جوہڑوں، نالوں، کوڑے کے ڈھیروں اور ٹوٹے پھوٹے راستوں کے ارد گرد آباد ہیں۔ دیہی اسلام آباد کی بہت سی یونین کونسلز انہی جیسے حالات سے دوچار ہیں۔ ان کے مکان سرکاری کوارٹروں جیسے ہیں جن کی حالت پارٹیشن سے پہلے بنے ہوئے اندرون لاہور جیسی ہو گئی ہے۔

موٹر سائیکلوں، ٹیکسیوں پر سواری کرنے والے یہ باسی اکثر تنگ بازاروں میں سے غیر معیاری اشیا سستے بازاروں سے خریدنے کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ مسائل میں شرابور اور سی ڈی اے کی سہولیات سے سوتیلے بچوں کی طرح دور جن کی زندگی کا مقصد بس ایسی دعائیوں کے سہارے گزرتا ہے کہ کہیں ٹماٹر مہنگے نہ ہو جائیں، کوئی بیمار نہ ہو جائے، جوتا نہ پھٹ جائے یا فیس نہ بڑھ جائے۔

یہ لوگ اپنے سے نسبتا بہتر معاشی حالات والے دوسرے شہروں میں آباد رشتہ داروں کو اپنی اسلام آباد کی رہائش کا حوالہ صرف جلانے کے لیے دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ اسلام آباد ان کے لیے بنا ہے نہ یہ اس میں رہتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی سوچتا ہے۔

پانچواں اسلام آباد ان چند سو افراد پر مشتمل ہے جو اسلام آباد کو قارون کے خزانے اور شداد کی جنت کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی کسی اور کے لیے بنائی ہوئی سہولت ان کی چاندی کا باعث بنتی ہے۔ پلازے، زمینیں، ٹھیکے، ہاؤسنگ سو سائٹیز، اپنے حق میں کاروباری فیصلے، مراعات خاموشی سے استعمال کرتے ہوئے یہ راتوں رات ارب، کھرب پتی بن جاتے ہیں۔

ان کو اسلام آباد سے صرف اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی کسی شکاری کو سونے کی چڑیا سے۔ یہ اسلام آباد کو اپنے پھندے میں پھنسا کر راج کرتے ہیں۔ ان کو فرق نہیں پڑتا شہر خسارے میں ہے یا منافع میں، ڈوب رہا ہے یا تیر رہا ہے۔ یہ اسلام آباد کے بےتاج بادشاہ ہیں۔

لیکن اس شہر کی تقسیم پورے ملک میں دولت، طاقت اور سہولت کی تقسیم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ایک پاکستان وہ ہے جو اس ملک کی شکست و ریخت اور بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالتے سنبھالتے اس کا مالک بن گیا ہے۔ انتخاب ہو یا مارشل لا، اس طبقے کو زوال نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا پاکستان وہ ہے جہاں کاروبار اور سیاست مل کر ایک محدود جنت بنائے ہوئے ہیں۔ جو حالات سے وقتی طور پر متاثر ہونے کے باوجود مقتدر و معتبر رہتا ہے۔

تیسرا پاکستان ان شہریوں پر مبنی ہے جو مشکل حالات میں کامیاب ہونے کے بعد خو د کو دوسرے یا پہلے پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

چوتھا پاکستان ان کا ہے جو نہ اس ملک میں رہتے ہیں نہ اپنے خاندانوں کو یہاں پر آباد کرنا چاہتے ہیں مگر خاموشی سے اقتدار کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

اور پھر پانچواں پاکستان ان کا ہے جن کی ہانڈی سے پیاز، ٹماٹر، گوشت، دالیں، سبزی، گھی غائب کر دیے گئے ہیں۔ جن کی جیب سے پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ساڑھے سات سو ارب روپے چرا لیے جاتے ہیں۔ جن کے سکول ٹوٹے اور ہسپتال بارش کے ایک چھینٹے سے گندے تالاب میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

جن کی ہر وقت قربانی کر کے باقی پاکستانوں کو بچایا جاتا ہے۔ یہ ہے گمنام عوام کا پاکستان۔ جو تیرا پاکستان ہے جو میرا پاکستان ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ