اسلام آباد میں تبدیلی کی خزائیں

مارگلہ کی پہاڑیوں پرجاڑا اپنے جوبن پر ہے۔ پتے زنگ آلود رنگوں میں بدل کر جھڑ رہے ہیں، ٹھنڈی یخ بستہ ہوائوں کے تھپیڑے لگ رہے ہیں لیکن مارگلہ کی وادیوں میں تبدیلی کی ہوائوں کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔

بظاہر عمران خان چاہتے تھے کہ غصے میں آ کر حزب اختلاف کی جماعتیں توسیع یا دوبارہ تقرری کی مخالف کریں تا کہ ان کے تعلقات فوج سے کشیدہ ہوجائیں (اے ایف پی)

مارگلہ کی پہاڑیوں پرجاڑا اپنے جوبن پر ہے۔ پتے زنگ آلود رنگوں میں بدل کر جھڑ رہے ہیں، ٹھنڈی یخ بستہ ہوائوں کے تھپیڑے لگ رہے ہیں لیکن مارگلہ کی وادیوں میں تبدیلی کی ہوائوں کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کے ہاں البتہ راوی چین لکھ رہا ہے۔

ان کا اعتماد بظاہر ہمالیہ سے اونچا نظر آ رہا ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ اندھیرا چراغ تلے ہی ہوتا ہے۔

بری فوج کے سربراہ کی توسیع یا دوبارہ تقرری اب کوئی خبر نہیں رہی۔ یہ معاملہ کچھ تو سپریم کورٹ نے حل کر دیا ہے باقی عنقریب حل ہوا چاہتا ہے۔ سندھی کی ایک کہاوت کا مطلب کچھ اس طرح ہے: جہاں اونٹ دریا پار کرے گا وہاں اس کی دم بھی پار کر جائے گی۔

عدالت نے حکومت اور حزب اختلاف نے اس مسئلے کو پارلیمان کے ذریعے طے کرنے کے لیے کافی وقت دیا ہے۔ اس مسئلے پر ابھی تک حزبِ اختلاف کی صفوں سے کوئی منفی آواز سنائی نہیں دی۔ ن لیگ کے اکابرین لندن میں اس معاملے پر اپنی حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف ہیں جبکہ پی پی پی بھی عنقریب فیصلہ کر لے گی۔ فی الحال ہر طرٖف سے ست خیراں کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔

بلاول بھٹو نے ایک طرف آئینی ترمیم کی طرف اشارہ کیا دوسری طرف تنقید کے نشتر عمران سرکار پر ہی برسائے۔ ترمیم کا فائدہ حزب اختلاف کو ہے کیونکہ اس سے فیصلہ سازی میں حزب اختلاف کا کردار کلیدی بن جاتا ہے۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اس لیے حکومت کو پہاڑی سے نیچے اترنا پڑے گا۔

قومی اسمبلی میں تو حکومت کے پاس مانگے تانگے کی سادہ اکثریت حاصل ہے لیکن دو تہائی اکثریت کے لیے  اسے ن لیگ اور پی پی پی کے ’تھلے لگنا‘ ضروری ہوجائے گا۔ سینیٹ میں تو اس سے بھی بری صورت حال حکومت کے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ حکومتی اکابرین البتہ اس معاملے پر ’میں نہ مانوں‘ والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی پہلے ہی دن حزب اختلاف کے خوب لتے لیے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ حزب اختلاف کو بھگانا چاہتے تھے۔

بظاہر عمران خان چاہتے تھے کہ غصے میں آ کر حزب اختلاف کی جماعتیں توسیع یا دوبارہ تقرری کی مخالف کریں تا کہ ان کے تعلقات فوج سے کشیدہ ہوجائیں۔ اس نسخۂ کیمیا کا بظاہر مقصد ’ایک صفحے‘ والے بیانیے کے لیے ایک نئی انشورنس پالیسی خریدنا لگتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حزب اختلاف والوں نے بھی کچے گھڑے کا پانی نہیں پیا۔ انہوں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جس سے ان کے تعلقات کسی طور پر بھی فوج سے کشیدہ ہوں۔ انہوں نے الٹا الزام حکومت پر ہی لگا یا ہے کہ پہلے اس نے توسیع کے معاملے پر اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو متنازع بنایا اور اسے عدالتوں اور میڈیا میں گھسیٹا اور بعد میں غیرذمہ دارانہ بیانات سے غیر یقینی کے بادل چڑھا دیے۔ ابھی تک اس معاملے میں حزب اختلاف کا پلہ بھاری ہے۔

معاملے کو حکومتی وزرا مزید خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ بیان عمران خان کی کچن کیبنیٹ میں شامل وزیر فیصل واوڈا کا ہے جس نے حزب اختلاف کو چڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حزب اختلاف کی کوئی منت نہیں کریں گے: ’ہم نے کوئی رشتہ مانگنا ہے کہ ہم انہیں منت کریں؟‘

البتہ ’دیکھتی آنکھیں اور سنتے ہوئے کان‘ اس معاملے پر اپنی نظریں اور توجہ مرکوز رکھیں گے۔ حکومت کے پاس ایک پتہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد فیصلے کے خلاف جائزہ اپیل کرنا ہے۔ یہ بھی تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اور 28 نومبر کے فیصلہ آنے کے 30 دن کے اندر کرنا ہو گا۔ اس کا مقصد معاملے کو پارلیمان جانے سے روکنا ہے۔ پارلیمان سے روکنا اس لیے ضروری ہے تا کہ اسے حزب اختلاف کے ہاتھوں سے دور رکھا جا سکے۔

مولانا کے دھرنے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے جھٹکے کے باوجود حکومت کا انداز ابھی تک معاندانہ اور محاذ آرائی والا ہے۔ ریاست کے اداروں کو آزاد سوچ رکھنے والوں سے صاف کرنا اور انہیں حزب اختلاف اور میڈیا میں تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کرنا اسی سوچ کا غماز ہے۔

مشہور زمانہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کی ڈی جی ایف آئی اے کے طور پر تعیناتی، شہزاد اکبر کی وزیر مملکت کے عہدے پر ترقی اور انہیں ایف آئی اے امور میں اضافی ذمہ داریاں، ان کی شہباز شریف کیخلاف پھڑکتی ہوئی پریس کانفرنس، ان کی واپسی پر گرفتاری کی افواہیں، نیب کی طرف سے مریم نواز شریف کی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل، بشیر میمن کے انکشافات اور قبل از وقت رخصتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران سرکار اپنی طرز حکمرانی کو بہتر بنانے، معیشت کی زبون حالی کو درست کرنے، ملک میں سیاسی انتشار کو دور کرنے کی بجائے ابھی تک درجہ حرارت کو بلند کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نوکرشاہی کی ایک بار پھر اکھاڑ پچھاڑ، منہ سے آگ کے بگولے برسانے والے فیاض چوہان کی وزیر اطلاعات کے طور پر دوبارہ جلوہ افرز ہونے کے ساتھ ساتھ، عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار  کے لیے تعریفوں کے نئے پل باندھنا، اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو لوگ گڑھے میں گر گئے ہیں وہ مزید کھدائی میں مصروف ہیں۔

بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ لگتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ توسیع اور دوبارہ تقرری کے مسئلے سے پہلے وزیر اعظم تبدیل ہو جائے، شہباز شریف کی لندن پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کی تبدیلی اور نواز شریف کی ملک سے باہر جانے سے پہلے حکومتی اتحادیوں کو حکومت کے خلاف موقف اختیار کرنے سے عمران خان کی کچن کیبنیٹ سخت پریشان ہے۔ سیاسی عدم استحکام، خراب معیشت، بری طرز حکمرانی اور مخالفین کی پکڑ دھکڑ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی لیے بہت سے پنڈت مارگلہ کے جاڑے میں بھی برفانی بہار کی آمد دیکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے آنے والے دن، ہفتے اور مہینے خاصی اہمیت اور دلچسپی سے بھرپور ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر