کہا عمران کا ڈر ہے، کہا عمران تو ہوگا!

وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں موڑا جا سکتا۔ اسے آگے ہی جانا ہے۔ عمران کی کامیابی یا ناکامی کا تعین ان کی کارکردگی ہی کرے گی لیکن اپنی خوبیوں خامیوں سمیت۔ وہ اب اس سیاست کی ایک حقیقت ہیں جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

عمران خان کے ناقدین میں وہ بھی ہیں جو ہر دور میں انصاف کی بات کہتے آئے۔ ایسے بھی ہیں جنہیں عمران سے کچھ توقعات تھیں اور جب وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتیں تو وہ تنقید کرتے ہیں کہ ’تم بھی عام سے نکلے  (فوٹو: وزیراعظم ہاؤس فیس بک پیج)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


عمران خان کے پیشہ ور نقادوں پر پہلے حیرت ہوتی تھی، اب ترس آتا ہے۔ دن میں اتنی بار مرغ اذان نہیں دیتا جتنی مرتبہ یہ دہائی دیتے ہیں۔

ان کے لبِ شیریں آگ اگلتے ہیں تو ابن انشا یاد آ جاتے ہیں ؂

اس آگ سے لوگو دور رہو، ٹھنڈی نہ کرو، پنکھا نہ جھلو

حاکم وقت کی غلطی پر تاویل نہیں، تنقید ہونی چاہیے کہ یہ اصل میں اس کی خیر خواہی ہے۔ پیشہ ور نقادوں کا مسئلہ مگر عمران خان کی کارکردگی نہیں، عمران خان خود ہیں۔ یہ عمران کے طرز حکومت کو نہیں، اپنے ان دنوں کو روتے ہیں جب ان کا پسینہ گلاب ہوتا تھا اور ان کے باغ میں بلبل چہچہاتی اور کوئل گیت سناتی تھی۔

کیا ہی بھلے وقت تھے۔ کرکٹ کی گتھیاں بھی اہل صحافت سلجھا رہے تھے، سفارت کاری بھی انہی کے دستِ ہنر کی محتاج تھی، انتہائی اہم اور تزویراتی نوعیت کے غیر ملکی دوروں پر آزاد صحافت سویٹ سیلفیاں لے کر مچلتی مٹکتی پھرتی تھی، مفت کے حج فرمانے کی سہولت بھی دستیاب ہوا کرتی تھی، وزارتیں اور ’مشاورتیں‘ بھی آزاد صحافت کی آرتی اتارتی تھیں اور ہارٹیکلچر کی زلفیں بھی آزاد صحافت سنوارا کرتی تھی۔

 عمران خان نے آ کر مسند نشینوں اور اہل دربار کی محفلوں کے چراغ گُل کر دیے۔ اب کوئی نالاں ہے، کوئی بسمل۔ بستی بستی آتش فشاں ہیں اور قریہ قریہ سلگ رہا ہے۔

عمران خان کے ناقدین میں وہ بھی ہیں جو ہر دور میں انصاف کی بات کہتے آئے۔ ایسے بھی ہیں جنہیں عمران سے کچھ توقعات تھیں اور جب وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتیں تو وہ تنقید کرتے ہیں کہ ’تم بھی عام سے نکلے۔‘

اتفاق دیکھیے کہ عمران سے حسن ظن رکھنے والوں نے ان پر ایسی شدید اور بے رحم تنقید کی ہے کہ ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن عمران خان کے پیشہ ور ناقدین میں سے کسی نے اپنے اپنے ممدوحین پر عشروں میں کبھی تنقید کرنے کی گستاخی نہیں کی۔ ان کے ہاں اس بات پر گویا اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ شریف اور زرداری خاندان جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے اور عمران خان جو کرتا ہے غلط کرتا ہے۔ دلیل کی دنیا میں ایسی تنقید کا کیا اعتبار؟

عمران کے خلاف مقدمہ اگر یہ ہو کہ وہ بھی پہلے والوں جیسے ہوتے جارہے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر مقدمہ یہ ہو کہ پہلے والے تو رجال کار تھے، ان کے دور میں تو دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے اور عمران نے آ کر سب کچھ برباد کر دیا ہے تو یہ وہ لطیفہ ہے جو ملا نصیر الدین کو بھی گد گدا دے۔

 

پیشہ ور ناقدین کا عمران کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟ یہ کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل رہی اور ان کی کامیابی شفاف نہیں ہے؟ تو کیا اسلامی جمہوری اتحاد اسٹیبلشمنٹ کی بجائے آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن نے بنوایا تھا اور مہران بینک کا مال غنیمت کیا تحریک انصاف پر لٹایا گیا تھا؟

شاہد خاقان عباسی صاحب نے ہر اس الیکشن کی شرح بیچ چوراہے میں بیان کر دی ہے جو ن لیگ نے جیتا تھا۔ کیا چھانگا مانگا ہارس ٹریڈنگ کی افتتاحی تقریب کے میزبان عمران خان تھے؟ کیا شاہد اورکزئی کو ہارس ٹریڈنگ کی ذمہ داری عمران نے دی تھی اور کیا وہ عمران کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے کہ ہارس ٹریڈنگ تو ہو گئی اب بقایا رقم ان سے لے کر دی جائے؟

اگر یہ پرانی باتیں ہیں اور اب نواز شریف صاحب بدل چکے ہیں تو کیا مشرف دور کے اختتام پر جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے کے بعد نواز شریف نے تقریباً ڈیڑھ سو ’لوٹوں‘ کو واپس اپنی پارٹی میں نہیں لیا تھا۔ یہ جمہوریت کی سر بلندی کے لیے فی سبیل اللہ ن لیگ میں آئے تھے یا کہیں سے کسی نے اشارہ کیا تھا؟

ن لیگ کا مقصد اگر جمہور اور آئین کی بالادستی ہے تو آرمی چیف کو ایکسٹینشن کا ووٹ کیوں دیا گیا؟ مفتاح اسماعیل نے حالیہ الیکشن میں یہ مطالبہ کیوں کیا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کروایا جائے؟ احسن اقبال کو پورے بجٹ میں یہی چیز قابل اعتراض کیوں لگی کہ عمران نے دفاعی بجٹ نہیں بڑھایا؟ کیا یہ نواز شریف بقلم خود نہیں تھے جو پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف غداری کا مقدمہ لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے؟ آپ جمہوری بیانیے کی حدت سے دہک رہے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے ’ہجر‘ کی آگ میں جل رہے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 رہ گئی پیپلز پارٹی تو اس کی جمہوریت دوستی کی شرح پی ڈی ایم کے بزرگ سربراہ ہی بیان کر سکتے ہیں کہ 73 کے آئین کے تناظر میں پیپلز پارٹی کس کے ساتھ کھڑی ہے۔

مطالبہ اگر یہ ہوتا کہ سب ٹیمیں کرکٹ کا میچ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کھیلیں تو قابل فہم تھا لیکن مطالبہ اگر یہ ہے کہ ہم تو کرکٹ کا کھیل کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلیں گے لیکن عمران کرکٹ کا میچ ہاکی کے کھلاڑیوں سے کھیلے تو انوکھے لاڈلوں کو چاند کوئی کہاں سے لا کر دے۔

معیشت کے میدان میں عمران حکومت سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان پر تنقید کی جانی چاہیے لیکن کیا معیشت عمران نے ڈبوئی ہے؟ 70 سال قرض لیا جاتا رہا اور امداد کھائی جاتی رہی۔ افغان جہاد بھی آیا اور گزرگیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی آ کر چلی گئی۔ ڈالروں کی ریل پیل کے اس موسم میں کیا پاکستان میں ڈھنگ کی کوئی ایسی انڈسٹری لگائی گئی جو ملک میں زرمبادلہ لاتی؟ آج پاکستان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ قرض کا انبار لگا ہے۔ نہ قرض آ رہا ہے نہ امداد مل رہی ہے۔ اپنے حصے کی غلطیوں کا بوجھ بلاشبہ اسی حکومت پر ہوگا لیکن اس اقتصادی تباہی کا ذمہ دار عمران کیسے ہو گیا؟ اور دوسرے سارے سرخرو کیسے ہوگئے؟

نواز شریف اگر اچھی معیشت چھوڑ گئے تھے تو ن لیگ کے آخری بجٹ میں بیرونی قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص رقم ملک کے دفاعی بجٹ سے زیادہ کیوں تھی؟

سیاست میں عمران کی پذیرائی اسی لیے ہوئی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے لوگ مایوس تھے۔ اب اگر وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے تو ان پر تنقید ہونی چاہیے لیکن اس تنقید میں دسترخوان پر چنی لذتوں کی نہیں، دیانت کی خوشبو آنی چاہیے۔ جنہوں نے سالہا سال کبھی بھولے سے بھی نواز اور زرداری پر تنقید کی گستاخی نہ کی ہو، وہ عمران پر پورے قہر کے ساتھ ٹوٹ پڑیں تو انہیں قلم کا چی گویرا کیسے لکھا جائے؟

وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں موڑا جا سکتا۔ اسے آگے ہی جانا ہے۔ عمران کی کامیابی یا ناکامی کا تعین ان کی کارکردگی ہی کرے گی لیکن اپنی خوبیوں خامیوں سمیت۔ وہ اب اس سیاست کی ایک حقیقت ہیں جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

کہا عمران کا ڈر ہے، کہا عمران تو ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ