اپنے ہزاروں ہم وطنوں کی طرح عبدالخالد نبی یار افغانستان کے مرکزی پاسپورٹ آفس کے باہر اس قیمتی سفری دستاویز کے لیے درخواست دینے کا انتظار کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ جنگ زدہ ملک سے باہر جا سکیں۔
طالبان افغانستان کے دیہی علاقوں میں بڑی تیزی سے آگے بڑھے ہیں جب کہ غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو چکا ہے۔
بہت سے افغان شہری جو وسائل رکھتے ہیں، وہ باہر جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
52 سالہ نبی یار خاص طور پر خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’اگر صورت حال مزید خراب ہوتی ہے تو ہمیں یہاں سے جانا پڑسکتا ہے کیونکہ میں نے ایک بار نیٹو کے فوجی اڈے پر دکان چلائی تھی۔‘
ہر شہری فوری طور پر ملک نہیں چھوڑے گا ، لیکن زیادہ تر لوگ حفاظت کے پیش نظر ایسا چاہتے ہیں تاکہ وقت آنے پر وہ کم سے کم مدت میں ملک چھوڑ دیں۔
نبی یار نے مزید کہا ’حالات خراب ہونے کی صورت میں لوگ پہلے سے تیار رہنا چاہتے ہیں۔‘
دن طلوع ہونے سے پہلے ہی درجن بھر لوگ کابل میں پاسپورٹ آفس میں قطار بنانا شروع کر دیتے ہیں اور صبح آٹھ بجے تک قطار کئی سو میٹر تک طویل ہو چکی ہوتی ہے۔
درخواست دہندگان آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں، کبھی کبھار کسی پولیس افسر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی قطار نہ توڑے۔ ایک اہلکار بھیڑ میں صحافیوں کی دلچسپی سے مشتعل نظر آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا ’کسی بھی افغانی کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا معمول کی درخواست ہے۔‘ لیکن حالیہ ہفتوں میں درخواست دینے والے نمبر معمول کے علاوہ رہے ہیں۔
ایک پولیس افسر نے کہا ’ہمیں عام طور پر دو ہزار کے مقابلے میں روزانہ دس ہزار افراد قطار میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔‘
36 سالہ انجینیئر خلیل اللہ صبح پانچ بجے اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ پہنچے۔
انہوں نے بتایا ’قطار میں پہلے ہی 300 افراد موجود تھے۔‘
قطار میں کھڑی کمپیوٹر سائنس کی 23 سالہ طالب علم زینت بہار نظری نے کہا ’جب ہم بچے تھے تو ہمارے اہل خانہ بتاتے تھے کہ طالبان نے اتنے لوگوں کو مار ڈالا، لاپتہ کر دیا۔ وہ خواتین کے ساتھ متشدد تھے، انھیں تعلیم کی اجازت نہیں دی اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔‘
’جب آپ سکول یا یونیورسٹی جاتے ہیں تو آپ ایک روشن مستقبل کی امید کرتے ہیں ، لیکن اگر طالبان اقتدار میں آ جاتے ہیں تو روشن مستقبل کی امید ختم ہوجائے گی۔‘