’جعلی کمپنی، جعلی ملازمت کے اشتہار اور فیس وصولی کا فراڈ‘

کسی طرح سے ایک غیر قانونی ٹیسٹنگ کمپنی نے بڑی تعداد میں ملازمت کی تلاش میں لوگوں کو مبینہ طور پر لوٹا۔ نیب کو امید ہے کہ اس کمپنی کے سربراہ کے خلاف کرپشن ریفرنس بہت جلد مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گے۔

اسلام آباد میں نیب کا دفتر (سہیل اختر/ انڈپینڈنٹ اردو)

راولپنڈی کے محمد شبیر (فرضی نام) نے گذشتہ سال ایک اخبار میں اشتہار دیکھ کر سرکاری ملازمت کے لیے درخواست دی، جس کے حصول کے لیے انہیں بڑی رقم خرچ کرنا پڑی، مگر نہ نوکری ملی اور نہ پیسے۔

28 سالہ محمد شبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیسٹنگ کمپنی والوں نے جس ملازمت کا اشتہار دیا تھا معلوم نہیں وہ تھی بھی یا نہیں۔

’انہوں نے مجھ سے ٹریننگ کے بہانے رقم لے لی اور ایک سال گزر گیا ہے ملازمت کا کوئی پتہ نہیں۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران محمد شبیر جیسے ہزاروں بے روزگار پاکستانی شہری اس قسم کی دھوکے بازی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔  

اسلام آباد کی ایک ٹیسٹنگ کمپنی پاکستان کے بعض بڑے اخبارات میں سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات چھپواتی، روزگار کے خواہش مند درخواستیں جمع کرواتے اور بھاری رقوم خرچ کرتے، لیکن کسی کو نوکری ملتی اور نہ پیسے واپس۔

اس حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈائریکٹر میڈیا نوازش علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ٹیسٹنگ کمپنی طویل عرصے سے ایسا کر رہی تھی۔ وہ لوگوں سے نوکریوں کے نام پر پیسے بٹورتے رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ نیب کو اس بارے میں کئی شکایات موصول ہوئیں اور جب یہ سلسلہ بڑھتا گیا تو اس کی طرف توجہ دینا پڑی۔

نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ نے گذشتہ بدھ کو ایک اجلاس میں اسلام آباد میں قائم ایک ٹیسٹنگ کمپنی کے سربراہ سید تجمل حسین کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس تیار کرکے دائر کرنے کی منظوری دی ہے۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ملزم نے غیر قانونی ٹیسٹنگ کمپنی کے ذریعے جعلی اور متعلقہ محکموں میں آسامیاں نہ ہونے کے باوجود ان کی اخبارات میں تشہیر کی، دھوکہ دہی کے ذریعے بڑے پیمانے پر عوام الناس کو لوٹا اور ان سے بھاری رقوم حاصل کیں۔‘

درخواست گزاروں کو ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ مشتہر ہونے والی آسامیوں کا سرے سے وجود ہی نہ ہونا تھا۔

اسلام آباد میں نیب کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ مذکورہ ٹیسٹنگ کمپنی درخواست گزاروں سے مختلف طریقوں سے پیسے بٹورتی تھی۔

’پہلے تو ہر درخواست کے ساتھ چار، پانچ سو روپے وصول کیے جاتے جبکہ امیدواروں کو باور کرایا جاتا کہ انہیں تربیت کی ضرورت ہے اور پھر اس مد میں ان سے بھاری فیسیں لی جاتیں۔‘

نوازش علی کا کہنا تھا کہ نیب کو سید تجمل حسین اور ان کی کمپنی کے خلاف اب بھی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ’آج بھی بیس پچیس کمپلینٹس ملی ہیں اور مجھے لگتا ہے مزید بھی آئیں گی۔‘

سینیئر نیب اہلکار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ گرفتاریاں بھی کی گئیں، تاہم انہوں نے ان کی تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

ٹیسٹنگ کمپنی کا طریقہ کار

نیب کے ڈائریکٹر میڈیا نوازش علی بتاتے ہیں کہ سید تجمل حسین کی ٹیسٹنگ کمپنی سب سے پہلے اخبارات میں اشتہارات چھپواتی، جن میں بڑی تعداد میں مختلف نوکریوں کا ذکر ہوتا تھا۔

’انہیں ایسے طریقے آتے تھے کہ اشتہارات جعلی ہونے کے باوجود اخبارات میں شائع ہو جاتے اور حتیٰ کہ ان جعلی اشتہاروں کی ادائیگیاں بھی ہوئیں۔‘

ٹیسٹنگ کمپنی ہر اشتہار میں کئی ایک پوزیشنوں کے لیے درخواستیں طلب کرتی تھی، تاہم کسی ایک مخصوص عہدے کے لیے سیٹوں کی تعداد بہت زیادہ رکھی جاتی تھی، جو بعض اوقات ہزاروں میں بھی ہوتی۔

2019 کے اواخر میں اس کمپنی کی طرف سے اخبارات میں چھپنے والے ایک اشتہار میں انوجیلیٹر کے عہدے کی تین ہزار سے زیادہ پوسٹوں کے لیے درخواستیں جبکہ تقریباً دو ہزار سے زیادہ سپروائزرز اور 1100 سکیورٹی کی پوسٹوں کے لیے درخواستیں مانگی گئیں۔

نیب اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ٹیسٹنگ کمپنی بڑی چالاکی سے اشتہار دیتی تھی، اس میں نہ کسی محکمے کا نام ہوتا اور نہ ہی کسی سرکاری اہلکار کا عہدہ یا نام لکھا جاتا، بلکہ صرف اپنے ادارے کا ذکر کرتے۔‘

درخواست فارم ٹیسٹنگ کمپنی کی ویب سائٹ پر مہیا کیا جاتا تھا، جسے پُر کر کے اشتہار میں دیے گئے پتے پر پراسیسنگ فیس کی بینک سلپ کے ساتھ بھیجا جاتا۔

ہر امیدوار کو درخواست کے ساتھ 450 روپے پراسیسنگ فیس کے طور پر جمع کروانے ہوتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیب اہلکار نے بتایا کہ ’اس بے روزگاری میں تین ہزار پوسٹوں کے لیے اشتہار چھپے تو کتنے لوگ اپلائی کریں گے، کم از کم 50 ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ اور ہر امیدوار 450 روپے ادا کرے تو کمپنی کی آمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سلسلہ یہیں نہیں رک جاتا، بلکہ ٹیسٹنگ کمپنی مخصوص درخواست گزاروں سے رابطہ کر کے انہیں اپنے ٹریننگ پروگرامز کی راغب کرتی تھی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے قادر فیض (فرضی نام) نے اسی ٹیسٹنگ کمپنی کا اشتہار دیکھ کر نوکری کے لیے درخواست دی تو کچھ دنوں بعد انہیں فون پر بتایا گیا کہ مذکورہ ملازمت کے لیے ان کی تعلیمی استعداد ناکافی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے قادر فیض نے بتایا کہ ’مجھ سے کہا گیا کہ اگر آپ ٹیسٹنگ کمپنی کا کورس کر لیں تو آپ کی نوکری پکی ہو جائے گی۔‘

نیب کے سینیئر اہلکار نے مزید بتایا کہ ٹیسٹنگ کمپنی نوکری ملنے کے لالچ میں تربیت حاصل کرنے کی حامی بھرنے والے امیدواروں سے بھی ہزاروں روپے بٹورتی رہی لیکن ان میں سے کسی کو نوکری نہیں ملی۔

نیب کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق مذکورہ ٹیسٹنگ کمپنی ہر امیدوار سے ایک روزہ تربیتی کورس کے 1500 سے 2000 روپے وصول کرتی رہی۔

نوازش علی کا کہنا تھا کہ سید تجمل حسین کے خلاف کرپشن ریفرنس بہت جلد مکمل کر کے نیب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

ٹیسٹنگ کمپنی کے ذمہ داروں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تمام دفاتر بند ہونے کی وجہ سے اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان