'میں گرتا، سنبھلتا اور پھر گرتا لیکن خطوط پہنچاتا رہتا'

محمد انور  نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 40 سال خدمت کرنے کے بعد جب وہ مستقل چھٹی لے رہے تھے تو ان کی تنخواہ تقریبا ً ایک ہزار روپے تھی۔

'میں 55 روپے ماہانہ اعزازیے پر ڈاکیہ بھرتی ہوا تھا اور تقریباً آس پاس کے 15 گاؤں کے لوگوں کو گھروں کی دہلیز پر خطوط پہنچاتا تھا۔ میں بارش یا طوفان کو نہیں دیکھتا تھا بلکہ اپنی ڈیوٹی خوش اسلوبی سے انجام دیتا تھا۔ 40 سال تک بطور ڈاکیہ کام کیا لیکن اب نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ  بیماری کہ وجہ سے چل پھر نہیں سکتا ہوں۔'

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے نواحی گاؤں چٹی کے رہائشی نابینا ڈاکیے محمد انور عرف حافظ صاحب کا جنہوں نے بینائی نہ ہونے کے باجود پاکستان پوسٹ کی 40 سال تک خدمت کی اور لوگوں کے گھروں میں پارسل، منی آرڈرز یا خطوط پہنچاتے رہے۔

ہم جب محمد انور کے گھر گئے تو وہ چارپائی پر بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہنس مکھ اور خوش طبعیت محمد انور ضعیف العمری اور بیماری کی وجہ سے اب زیادہ تر کمرے تک محدود رہتے ہیں۔

محمد انور  نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 40 سال خدمت کرنے کے بعد جب وہ مستقل چھٹی لے رہے تھے تو ان کی تنخواہ تقریبا ً ایک ہزار روپے تھی۔

انور نے بتایا کہ ’اب مزید ڈاکیے کی ڈیوٹی نہیں کرسکتا ہوں کیونکہ ضعیف العمری اور بیماری کہ وجہ سے اب چلنے پھرنے میں دشواری ہوتی ہے اور اب مجھے راستوں کا پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ ڈاک خانہ میرے گھر سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں میں روزانہ جاتا تھا۔‘

محمد انور کے صاحبزادے سرکاری ملازمت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے بھتیجے کے گھر رہتے ہیں۔

پاکستان پوسٹ کے ایک اہلکار کے مطابق محمد انور جس عہدے پر کام کرتے تھے وہ ایک اعزازی عہدہ ہوتا ہے جو ضلعی پوسٹ ماسٹر ہر ایک گاؤں یا علاقے میں ایک شخص کو تفویض کرتے ہیں۔

اہلکار نے بتایا کہ  پوسٹ ماسٹر کے اختیار میں ہے کہ وہ اس اعزازی ڈاکیے کے لیے ماہانہ کتنا معاضہ مختص کرتا ہے جس طرح محمد انور کے لیے ماہانہ تقریبا ایک ہزار روپے مقرر کیا تھا۔

محمد انور نے بتایا  کہ میں نے تنخواہ کی لالچ کبھی نہیں کی اور خوش اسلوبی سے 40 سال تک یہ کام کرتا رہا۔

محمد انور کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ خط کس کا ہے؟

محمد انور سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ کون سا خط کس کا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ڈاک خانے یا راستے میں کوئی بندہ میرے لیے خط یا پارسل کے اوپر نشان لگا دیتا تھا کہ فلاں شخص کا ہے اوراسی سائز سے مجھے پتہ چلتا تھا کہ خط اور پارسل کو کونسے گھر میں دینا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گاؤں میں گھروں کا پتہ بھی چلتا تھا اور چھڑی کے ذریعے ہی چلتا تھا اور یہ چھڑی میرا سہارا تھی۔

محمد انور نے بتایا کہ ’بارش ہو یا طوفان میں اپنی ڈیوٹی کے لیے جاتا تھا۔ انور نے اپنے پاؤں  پر لگے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'یہ زخم دیکھو یہ جوانی کے زخم ہیں۔ میں چلتے چلتے راستے میں گر جاتا تھا اور زخم لگتا تھا اور پھر ٹانکے لگا دیتا تھا۔ میں گرتا تھا، سنبھلتا تھا اور دوبارہ گرتا تھا، ہر زخم سے خون نکلنا شروع ہو جوتا تھا۔ـــــ'

محمد انور چونکہ ڈاک خانے کے مستقل ملازم نہیں تھے اس لیے  ریٹائرمنٹ کے وقت ان کو کوئی پینش نہیں ملی تاہم ایک نجی بینک کے مالک کی جانب سے اب  ڈاک خانے اور لوگوں کی خدمت کرنے پر ماہانہ پانچ ہزار روپے کا اعزایہ مقرر کیا ہے۔

محمد انور نے بتایا کہ حکومت یا ڈاک خانے کی طرف سے مجھے نوکری چھوڑنے کے بعد ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہے لیکن ایک بینک کی جانب سے ماہانہ پانچ ہزار روپے ملتے ہے۔

محمد انور آج کل چل نہیں سکتے تو ان کی بیماری اور علاج وغیرہ کے معاملات ان کے بھیتجے دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انور نے بتایا کہ ’حکومت یا ڈاک خانے کی طرف سے اگر مجھے ماہانہ تھوڑا سا بھی اعزازیہ مقرر کردیا جائے تو بہتر رہے گا اور اسی سے میری زندگی خوشی سے گزر جائے گی۔‘

گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں؟

دو اطراف سے پہاڑوں کی بیچ گاؤں کے کھلے محلے تھے اور علاقے میں گھر بھی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بنائے گئے تھے۔ محمد انور چٹی گاؤں سمیت دیگر گاؤں کو بھی خطوط پہنچاتے تھے۔

گاؤں کے لوگ اب بھی محمد انور کو یاد کرتے ہیں۔ اسی گاؤں کے رہائشی محمد صفدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچپن سے ہی ہم محمد انور کو دیکھتے تھے کہ وہ خطوط گھروں کو پہنچاتے تھے لیکن اب بیماری نے ان کو گھر تک محدود کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کئی مرتبہ  وہ ہمارے لیے بھی منی آرڈر، پارسل اور خطوط پہنچا چکے ہیں۔ اب چونکہ محمد انور نے مستقل چھٹی لی ہے تو ہمیں خود ککوتری گاؤں میں واقع علاقے کے ڈاک خانے جا کر خطوط حاصل کرنے پڑتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا