’پی پی پی اکیلے بلوچستان میں حکومت نہیں بنا سکتی‘

سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری اور سابق گورنر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی شمولیت کے بعد بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت بلوچستان میں حکومت بنائے گی تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق پارٹی وفاق میں حکومت بنانےکی صورت میں ہی صوبے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری،  جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کوئٹہ میں جلسے کے دوران (فوٹو :  پی پی پی فیس بک )

پاکستان مسلم لیگ ن سے مستعفی ہونے والے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری اور سابق گورنر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے باقاعدہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اتوار کو کوئٹہ میں دونوں رہنماؤں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر آئے اور خطاب میں کہا کہ ’آنے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی اور بلوچستان میں وزیراعلیٰ ’پی پی ہی کا جیالا ہو گا۔‘

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس پیش رفت کے باوجود پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مسقبل قریب میں بلوچستان میں اکیلے حکومت بنا سکے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بلوچستان کے عوام غیرت مند اور بہادر لوگ ہیں، ’پاکستان پیپلزپارٹی اور آپ کا رشتہ آج کا نہیں بلکہ تین، تین نسلوں کا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے صوبوں کو حقوق دلائے، این ایف سی ایوارڈ لائے، اٹھارویں ترمیم کے ذریعےعوام کو حقوق دلا کر وسائل کا مالک بنایا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پانچ سال پہلے بلوچستان میں وکلا کے ساتھ دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ ہوا۔ ’آج تک ہم ان کو انصاف نہیں دلا سکے۔ آج بھی اس نااہل اور نالائق حکومت کے دور میں جگہ جگہ ناانصافی اور ظلم ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی وہ واحد جماعت ہے جو آپ کے حقوق کا دفاع کرسکتی ہے۔ 

تاہم سینیئر صحافی اور صوبے کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار نور احمد سیاہ پاد سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی بڑی سیاست جماعت کبھی نہیں رہی۔ 

’مخلوط حکومت تو ممکن ہے، اکیلے نہیں‘

انہوں نے کہا کہ نواب ثنا اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ کے آنے سے صوبے میں پی پی پی کو بہت مدد ملے گی، تاہم بلوچستان میں یہ جماعت اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی۔

’اگر وفاق میں پیپلز پارٹی حکومت بنانےمیں کامیاب ہوجاتی ہے تو بلوچستان میں ان کی حمایت یافتہ ایک مخلوط حکومت قائم ہو سکتی ہے۔‘

نورا حمد کے مطابق: نواب ثنااللہ، جنرل (ر) قادر بلوچ اور نیشنل پارٹی کے سابق رہنما نواب محمد شاہوانی کی شمولیت سے جھالاوان اور مستونگ میں جماعت کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی۔ 

انہوں نے کہا کہ تاہم ان سب سے بڑی بات قادر بلوچ کی شمولیت سے رخشان بیلٹ اور کوئٹہ سٹی میں فرق پڑے گا، رخشان بیلٹ سے ایک دو ایم پی اے اور ایم این اے آسانی سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ 

نوراحمد سمجھتے ہیں کہ اگر شمولیتوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا ہے تو پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں وفاق میں کامیابی کی صورت میں یہاں سے 10 سے 12 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ 

انہوں نے کہا کہ ’ہماری اطلاعات کے مطابق سردار یار محمد رند کے بیٹے بیبرگ نے آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔ امکان ہے کہ سردار یار محمد رند بھی پی پی پی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔‘ 

اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ عبدالقدوس بزنجو، جو اس وقت سپیکر بلوچستان اسمبلی ہیں، سردار صالح بھوتانی، مگسی، کھوسہ اور جمالی برادری سے لوگوں کا پی پی پی کا حصہ بننے کا امکان ہے۔ 

نور احمد نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی رہنماؤں میں بلوچستان سے نواب محمد خان باروزئی، نواب غوث بخش رئیسانی اور یحییٰ بختیار شامل رہے۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ 1973 میں جام غلام قادر میں پی پی کی حمایت سے آئے اور سال سوا سال حکومت میں رہے، پھر گورنر راج لگ گیا۔ اس کے بعد نواب محمد خان باروزئی آئے جو وزیراعلیٰ بنے۔ 

’بلوچستان میں انہی کو اقتدار ملتا ہے جو وفاق کے حمایت یافتہ ہوں‘

نورا حمد کے بقول: ’جنرل (ر) پرویز مشرف کا دور پیپلز پارٹی کے لیے مشکل رہا۔ 2008 کے انتخابات میں قوم پرستوں نے بائیکاٹ کیا اور بے نظیر بھٹو قتل کردی گئیں، اس دوران جماعت کو کامیابی ملی اور بلوچستان میں بھی پی پی پی کی حکومت نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بنی لیکن یہ مخلوط حکومت تھی جس نے اپنی مدت پوری کی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں ہمیشہ ان لوگوں یا جماعتوں کو اقتدار ملا، جنہوں نے وفاق کی سیاست کی یا جنھیں وفاق کی حمایت حاصل رہی۔‘

نوراحمد کے بقول: پی پی پی میں بھی دو کیڈر ہیں ایک نظریاتی اوردوسرے وہ ہیں جو شامل ہوتے رہے ہیں۔

نواب ثںا اللہ زہری، جنرل (ر) عبدالقادربلوچ اور دیگر کی شمولیت کے حوالے سے نور احمد کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی ایک اپنی قبائلی حیثیت ہے اور ان کے آنے سے مزید لوگ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ 

قبائلی دشمنیاں رکھنے کے باوجود نواب ثنا اللہ زہری کی قبائلی حیثیت اور چیف آف جھالاوان ہونے کے باعث وہ دیگر قبائلی سرداروں اور نوابوں سے بہتر تعلقات رکھتے ہیں، جن میں نواب اسلم رئیسانی اور سردار یار محمد رند شامل ہیں۔ اس موقعے پر نواب ثنا اللہ زہری اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

نواب ثنااللہ زہری نے کہا کہ وہ آج دوبارہ اپنے والد دودا خان زہری کی پرانی پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ ثنا اللہ زہری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’میرے بیٹوں کے قاتلوں کے کہنے پر نوازشریف نے ہمیں بے عزت کیا۔ ہم نے پھانسی کے پھندے کو چوما۔ انگریزوں کے دور سے لے کر ہم اپنی عزت کی خاطر سر کٹاتے آئے ہیں لیکن عزت پر کوئی سودا نہیں کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے آئی جے آئی کے بعد نوازشریف کو آگے کیا اور غلام اسحاق کے ذریعے سازش کی اور بی بی شہید کی حکومت ختم کرائی، اس کے بعد ہم نے نوازشریف کو دوبارہ وزیراعظم بنایا اور سب سے پہلے نوازشریف کا شکار غلام اسحاق بنا، نوازشریف میں وفا نہیں۔‘ 

انہوں نے کہا: ’بلاول بھٹو زرداری صاحب آپ سے توقع ہے کہ نوازشریف نے جو کیا وہ آپ نہیں کریں گے۔ میں پیپلز پارٹی کو خون پیسہ ایک کرکے آگے لے کر جاؤں گا۔ آئندہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کو کامیاب کرائیں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ مستقبل کے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پیپلزپارٹی آنے والے الیکشن میں صحیح معنوں میں پلاننگ کرے تو 12 سیٹوں سے زیادہ حاصل کرسکتی ہے۔

’ہماری سیاست بلوچستان کی شخصیات کے اردگرد گھومتی ہے۔ ہم مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں دفن کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں صرف پی ٹی آئی کے قاسم سوری ہیں۔ ان کے الیکشن جیتنے پر بھی ہمیں سنگین اعتراضات ہیں۔‘

جنرل ( ر) عبدالقادر فوج میں کور کمانڈر کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد گورنر بلوچستان رہے۔  فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مسلم لیگ ن کا حصہ بنے، جسے انہوں نے اب خیر باد کہہ دیا ہے۔ 

 مسلم لیگ ن سے علیحدگی 

2020 میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کوئٹہ میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا، جس سے نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے فوج پر تنقید کی۔ اس کے بعد عبدالقادر بلوچ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

 تاہم بعض ذرائع کہتے ہیں کہ قادر بلوچ کی ناراضی کی ایک دوسری وجہ جلسے میں مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کو مدعو نہ کرنا تھا، جس کے باعث دونوں رہنماؤں نے ن لیگ کو خیرباد کہہ دیا۔

ان دونوں سیاسی شخصیات کے علاوہ سابق صوبائی وزیرکرنل ریٹائرڈ یونس چنگیزی، سابق صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی، سابق صوبائی وزیر آغا عرفان کریم احمد زئی، سابق مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان کشور احمد جتک، سابق ضلعی ناظم نصیرآباد سردار چنگیز ساسولی، سردار عمران بنگلزئی، میر عبدالرحمٰن زہری، سابق چیئرمین خضدار نواب شیرباز نوشیروانی، میر عرفان کرد، میر غازی خان پندرانی اور سید عباس شاہ سمیت کئی اہم قبائلی وسیاسی رہنماؤں نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست