’میں نے کابل ائیر پورٹ سے نکلنے کے لیے گاڑی کی طرح جہاز چلایا‘

کابل سے واپس آنے والی پی آئی اے کی آخری پرواز کے کپتان کیپٹن مقصود بجرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ہمارے جہاز پر قبضہ کر کے عملے اور مسافروں کو یرغمال نہ بنا دیا جائے۔‘ تب انہوں نے بغیر کنٹرول ٹاور رابطے جہاز اڑانے کا فیصلہ کیا

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے سے چند گھنٹے قبل پاکستان کی قومی ائیر لائن کے دو مسافر طیارے پاکستانی شہریوں اور بعض افغان رہنماؤں کو اسلام آباد لانے کابل شہر سے چند کلومیٹر دور حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچے۔ 

ان میں سے ایک ائیر بس (پی کے 6252) جہاز تھا، جسے کیپٹن مقصود بجرانی چلا رہے تھے۔

کیپٹن مقصود بجرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتوار کی صبح تقریبا دس بجے جب وہ ائیر پورٹ پر اترے تو صورت حال بالکل نارمل تھی، اور بڑی تعداد میں امریکی اور دوسری ائیر لائنز کے جہاز ٹیک آف کر رہے تھے۔ 

پی آئی اے کے دونوں جہازوں میں مسافروں کے بیٹھ جانے کے بعد 777 جہاز کو ٹیک آف کی اجازت مل گئی اور اس نے اسلام آباد کی جانب اپنا سفر شروع کر دیا۔ 

کیپٹن مقصود بجرانی والے جہاز ائیر بس میں 170 مسافر سوار ہوئے، جب کہ عملے کے علاوہ پاکستان سے ساتھ جانے والا جہاز کا مینٹیننس کا سٹاف بھی طیارے میں موجود تھا۔ 

ابھی کیپٹن مقصود بجرانی کے جہاز کا پرواز بھرنے کا نمبر نہیں آیا تھا کہ ائیر پورٹ کے کنٹرول ٹاور سے اے ٹی سی زیرو کا پیغام موصول ہوا، جس سے مراد ہے کہ کنٹرول ٹاور کے عملے نے کام بند کر دیا ہے اور جہازوں کو اڑان بھرنے کے لیے ہدایات جاری نہیں کی جائیں گی۔ 

کیپٹن مقصود نے پاکستان میں پی آئی اے کے حکام کو اطلاع دی اور کنٹرول ٹاور کے کام دوبارہ شروع کرنے کا انتظار کرنے لگے۔ 

اسی اثنا میں ائیر پورٹ کے رن وے پر بڑی تعداد میں لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔  

کیپٹن مقصود بجرانی نے بتایا: ’لوگ ہر طرف سے آ رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ائیر پورٹ کے رن وے پر جیسے ایک افراتفری سی شروع ہونے لگی۔‘ 

انہوں نے کہا: ’مجھے مسافروں، اپنے عملے اور جہاز کی حفاظت عزیز تھی، اور میں نے اس وقت فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کیا جائے؟‘ 

کیپٹن مقصود بجرانی نے کئی مرتبہ ائیر پورٹ کی اے ٹی سی اے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی، جب کہ پاکستان سے ہی انہیں بتایا گیا کہ حامد کرزئی ائیر پورٹ کے کنٹرول ٹاور پر عملے کی واپسی کا جلدی امکان نہیں ہے۔ 

اسی دوران کیپٹن مقصود بجرانی کا کنٹرول ٹاور کے عملے سے رابطہ ہوتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ اے ٹی سی کی مدد اور ہدایات کے بغیر خود سے ٹیک آف کر سکتے ہیں۔ 

کیپٹن مقصود نے کہا کہ اس دوران وہاں موجود کئی امریکی جہاز اور شینوک ہیلی کاپٹر امریکی فوجیوں اور دوسرے عملے کے ساتھ ائیر پورٹ سے اڑ رہے تھے اور وہ سب کنٹرول ٹاور کی مدد کے بغیر پروازیں بھر رہے تھے۔ 

کیپٹن مقصود بجرانی نے وہ مشکل وقت یاد کرتے ہوئے کہا کہ رن اور ائیر پورٹ کے دوسرے حصوں میں لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا، اور وہ مختلف جہازوں پر چڑھنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ 

کیپٹن مقصود نے مزید کہا: ’مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ہمارے جہاز پر قبضہ کر کے عملے اور مسافروں کو یرغمال نہ بنا دیا جائے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ایسے میں میں نے اپنے ساتھی پائلٹ سے مشورہ کیا اور اسے اعتماد میں لینے کے بعد مسافروں کو نشستوں پر بیٹھ جانے کا اعلان کیا۔‘  

’اور میں نے جہاز کر رن وے پر دوڑانا شروع کر دیا، اور تھوڑی دیر میں ہم ہوا میں اوپر اٹھنے لگے، اور ایسا میں سڑک پر گاڑی چلانے کی طرح ہی کر رہا تھا، یعنی میں نے دیکھ کر دوسرے ٹیک آف کرنے والے جہازوں سے اپنے جہاز کو بچانا تھا۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ تقریبا 16 سو میٹر کی بلندی پر ان کا رابطہ دوحہ کے کنٹرول ٹاور سے ہوا، جس کے بعد وہاں سے انہیں اپنے جہاز کو مزید بلندی میں لے جانے کے اوپر لیے ہدایات حاصل ہونا شروع ہو گئیں۔ 

بعد ازاں کیپٹن مقصود بجرانی نامساعد حالات میں معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے اور اپنے تجربے اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاز اور اس میں موجود عملے اور مسافروں کو بحفاظت پاکستان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان