کون جیتے گا کرکٹ ورلڈ کپ؟ شفیع نقی جامعی کا زائچہ

ان تین بڑوں میں سے جس نے بھی لائن ولینتھ سیدھی رکھی، نفسیاتی حملے جم کے کیے اور زبانی حملوں کا ٹھیکہ وکٹ کیپر یا سلپس کو دیے رکھا تو وہ ہاتھ دکھا سکتا ہے۔

واہگہ باڈر پر کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کی ٹرافی کی گذشتہ برس اکتوبر میں آمد کے موقع پر پاکستانی رینجرز کا روایتی جذبہ۔ (اے ایف پی)

فال نکالی، حسب منشا نہ نکلی، چھوٹی چڑیا سے پوچھا، اُس نے بھی کوئی ٹویٹ نہ کی، زائچہ تیار کیا وہ بھی بیکار نکلا۔

 آخر کار سلیکٹیڈ کی گذشتہ کئی ایک کارکردگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے محض تین بڑوں کو میں نے اس بنیاد پر چُنا ہے کہ ممکنہ طور پر ان میں سے جس کسی نے بھی لائن اور لینتھ سیدھی رکھی، نفسیاتی حملے جم کے کیے اور زبانی حملوں کا ٹھیکہ وکٹ کیپر یا سلپس کو دیے رکھا تو وہ ہاتھ دکھا سکتا ہے اور دیگر دھرندر فیورٹس کو حواس باختہ کر کے ’ورلڈ کپ ٹرافی‘ آسمان کو دکھاتا، اور فُل لینتھ ٹھینگا تمام پنڈتوں کو دکھاتا سرپٹ دوڑ سکتا ہے۔  

آمرانہ سوچ کے تحت سلیکٹ کیے گئے ان تین مہان دھرندروں میں شامل ہیں انگلینڈ، انڈیا، اور وطن عزیز پاکستان۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ یا ویسٹ انڈیز وغیرہ کو کافی پنڈتوں سے بات کرنے کے بعد مجھے فی الوقت باہر کرنا پڑا لیکن یہ پڑھ کرغش کھانے اور ایک مخصوص بے پیندہ سیاسی ٹولے کی طرح گالیوں کا بازار گرم کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں کیونکہ ’کرکٹ شرفا کا کھیل‘ ہے۔

ویسے بھی ہو سکتا ہے آپ کے صبر کا نہ سہی تحمل کا پھل میٹھا نکلے اور 1992 کی طرح پھر ایک بار رمضان میں منعقدہ یہ ورلڈ کپ مملکت خداداد کی جھولی میں آن ٹپکے۔

موجودہ کارکردگی میں، چھکّے چھڑانے والی بیٹنگ، پنجرے میں بند رکھنے والی اٹیک بولنگ اور ایرٹائٹ فیلڈنگ شامل ہیں اور انہی کی بنیاد پر میرے نزدیک:

انگلینڈ پہلے نمبر پر ہے۔ امکان: 35 فیصد، بکیز کا نمبر ون فیورٹ  ہے

اوپنر جونی بیرسٹو انگلینڈ کی رن مشین اور دیو ہیکل اسکورر بن کے ابھرے ہیں۔ کرکٹ مینیجر اور ٹرینر نے ٹیم کو مارک رام پرکاش جیسی ایر ٹائٹ فیلڈنگ کی پریکٹس کرائی ہے گو کہ عمومی بولنگ اوسط درجہ کی اور قدرے پھُسپھُسی ہے لیکن سپنر عادل رشید کی گُڈی چڑھی توانگلینڈ حیرت زدہ کر سکتا ہے۔

ویسے بھی 300 سے زیادہ کا ہدف حاصل کر لینا لیکن ایسا ہی ہدف مدمقابل کو پورا نہ کرنے دینا انگلینڈ کے نزدیک اب معمول بن گیا ہے۔

پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ امکان: 25 فیصد (ہنسنا منع ہے) بکیز کا پانچواں فیورٹ ہے

انگلینڈ سے چار صفر کے وائٹ واش کے بعد لگتا ہے پاکستان کو مطلوبہ جھٹکا لگ چکا اور اسی لیے اس نے فہیم اشرف، جنید خان اورعابد علی سے فوری معذرت کے ساتھ ہی، جادوئی پیسر محمد عامر، سینہ توڑ پیس اٹیکر وہاب ریاض اور قدم جماؤ رن بناؤ پُوت آصف علی کو خوش آمدید کہا۔

پیشگوئی کرنے والے تجزیہ کار پنڈتوں کے مطابق پاکستان چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے 15 رکنی سکواڈ میں سے پانچ ورلڈ کپ کے تجربہ کار ہیں اور گو کہ یہ پل میں رتّی پل میں ماشہ ٹیم ہے، یکسانیت سے کھیلنا اور اعصاب پر قابو رکھنا اس کا شیوہ نہیں لیکن اس کی دو ینگ گنز 24 سال کے بابر اعظم اور 25 سالہ حسن علی ہوش و حواس پویلین پار اڑا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر فخر زمان (انگریز ان کے نام کا تلفظ ’ف‘ کو الف کے ساتھ اُٹھا کر ’ک‘ کے ساتھ ایسا کرتا ہے کہ معنی بدل جاتے ہیں، بے اختیار ہنسی آتی ہے) نے ظالمانہ سینچری کا ڈھیر لگایا تو باقی کا حشر ہو گا۔

انڈیا کا تیسرا نمبر ۔ امکان: 21 فیصد ہیں (ہنسنا یہاں بھی منع ہے) بکیز کا نمبر دو فیورٹ ہے

انڈیا تیسری بار ٹرافی کی تلاش میں ہے۔ تینوں شعبوں میں بظاہر بھاری بھرکم بھی ہے اور ہر منجھدار سے نکال لے جانے والے ’رن پوت‘ وراٹ کوہلی کی مینٹل اور فزیکل فٹنس دونوں ہی سینچری دار ہیں لیکن ایک بھارتی  بڑے گرو اور ایک نجومی نے لکھ ڈالا ہے کہ انڈیا کی اس بار جیت کے لیے وراٹ کوہلی کو 1986 یا پھر 1987 میں پیدا ہونا چاہیے تھا 1988 میں نہیں۔

یہ کیا منطق یا کون سے ستارے کہہ رہے ہیں مجھے نہیں معلوم۔ انڈیا کو کھیلتا دیکھنے انگلینڈ میں آباد ’لٹل انڈیا‘ بھی ہر میچ میں آئے گا، بہت شور مچائے گا جس سے انڈیا کو تازہ آکسیجن ملے گی۔

انگلینڈ کی وکٹیں بھی اس کی آزمائی ہوئی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ راؤنڈ رابن میں انگلینڈ سے ہارے لیکن یہی بات اسے تاؤ دلائے گی وہ بھنّا کے کھیلے گا جو دھونی اور جیسپریت بمرا دونوں میں سے کسی کو راس نہیں۔

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو میں نے ’بڑوں‘ کے کہنے پر باہر رکھا ہے۔ بمشکل کوالیفائی کرنے والے ویسٹ انڈیز اور ذہنی و اعصابی تناؤ کے شکار سری لنکا کے لیے بُکیز بہت زیادہ انعام دے رہے ہیں اور یہی ریٹ بنگلہ دیش اور افغانستان کے لیے بھی لگ رہے جو نیک شگون نہیں۔                

اس سے پہلے کہ چوکّے چھکّے لگیں یا جہازی سائز سکرین پر امپائر کی استادہ انگلی دکھائی دے۔ آموختے (ہوم ورک) کے لیے چند باتیں:

ہر چار سال بعد آنے والے کرکٹ ورلڈ کپ کا یہ 12واں مقابلہ ہے جو پانچویں مرتبہ انگلینڈ اور ویلز میں منعقد ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اس کی ٹھیکے دار ہے۔ اس کے تمام ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ممالک اس کے رعب ڈالنے والے اراکین ہیں جن میں سے بعض کی ڈھیروں ڈھیر چلتی ہے اور بعض کی ڈھیر ہو جاتی ہے۔

اس کی  واضح اور دھماکہ خیز مثال دوسری قسط میں جو پاکستان کے31 مئی کو ٹرینٹ برج کے میدان میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے راؤنڈ رابن میچ کے بعد سہی۔

30 مئی 2019 سے شروع ہونے والے اس ورلڈ کپ کے مقابلے 14 جولائی کو لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں  فائنل کے باجے گاجے کے ساتھ ختم ہوں گے۔

اس بار پچھلے دو ورلڈ کپ کی طرح 14 نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کا ٹیمپو برقرار اور بظاہر ایکسائٹمنٹ بڑھانے کے لیے 10 ٹیمیں ہیں اور راؤنڈ روبن کے انداز میں ہر ٹیم، دوسری ٹیم کے خلاف کھیلے گی۔

ان میں سے چار ٹاپ ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ 30 مئی کو میزبان انگلینڈ، اوول میں جنوبی افریقہ سے اور 31 مئی کو پاکستان ویسٹ انڈیز سے ٹرینٹ برج میں کھیلے گا۔

اس کے بعد جون میں دما دم مست قلندر کے بقیہ مدارج ہیں اور سیمی فائنل اور فائنل کے لیے ایک ایک دن اضافی رکھا گیا ہے تاکہ  بارش رنگ میں بھنگ نہ ڈالنے پائے۔ 2019 کے چیمپین کے لیے 40 لاکھ ڈالر اور رنر اپ کے لیے 20 لاکھ رکھے گئے ہیں۔


شفیع نقی جامعی معروف اور سینیئر صحافی اور میزبان ہیں۔ وہ انڈپینڈنٹ اردو کے لیے 2019 کرکٹ ورلڈ کپ پر خصوصی تحریریں لکھیں گے۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی پیش خدمت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ