عورت کھلونا نہیں!

کیوں خود کو زمانہ جاہلیت میں دھکیل بیٹھے ہو؟ کیا پیغمبر اسلام کا فرمان بھول چکے ہو کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں؟ پھر کیوں ان حدوں سے تجاوز کرتے ہو؟

اسلام آباد میں اس سال مارچ میں منعقد ہونے والے عورت مارچ کے چند شرکا (اے ایف پی)

ارادہ تو یہ تھا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے پر کچھ لکھا جائے یا پھر تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اس کی کارکردگی کو پرکھا جائے لیکن مینار پاکستان پر پیش آنے والے ہوش و حواس اڑا دینے والے واقعے نے سوچ کے مینار ہی مسمار کر ڈالے، روح کانپ اٹھی جب سنا اور دیکھا کہ ایک اور نہتی لڑکی جتھے کے ہتھے چڑھ گئی۔

افسوس صد افسوس، مینار پاکستان کے وہ مناظر دیکھ کر آنکھیں ششدر رہ گئیں ہوش و ہواس اور سوچ کے دریچے مفلوج ہو کر رہ گئے۔ گو کہ ہمارے معاشرے کی مظلوم عورت کی یہ کہانی پرانی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن ہَوا کی بیٹی کسی نہ کسی کی ہَوس کا نشانہ بن جاتی ہے۔

لاہور جیسے واقعات میں جب جنسی حملہ آور سینہ تان کر مینار پاکستان پر ہَوا کی بیٹی پر جنسی یلغار کرتے اور عزت و آبرو کو تار تار کرتے ہیں تو ایک مظلوم عورت کو اس حال میں دیکھ کر دوسری عورت کا دل بھی دہل جاتا ہے۔ خواتین میں انتہاء کا غصہ اور غم  اُبھر آتا ہے۔ 

جنسی حملوں کے پے در پے واقعات کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ایک خاتون کے خلاف جرم سے لے کر دوسری عورت کی بے آبروئی تک جو وقفہ ہوتا ہے وہ بظاہر خواتین کے لیے امن کا وقفہ ہوتا ہے۔

جب ایک مظلوم عورت کی دنیا دنیاوی جسمانی ہوس کے لیے اجاڑ دی جاتی ہے اور پھر کچھ وقفے کے بعد اسی طرح کی ایک اور بھیانک خبر آ جاتی ہے تو یہ وقفہ بھی خواتین کے لیے صبر آزما لمحات میں بدل جاتا ہے۔

بنتِ ہوا صدمے سے دو چار رہتی ہے اور اسے خدشہ برقرار رہتا ہے کہ اگلا شکار وہ بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہ ہے وہ حقیقی ڈراونا خواب جو عورت کو تا عمر بے چین رکھتا ہے۔

اور ایک خواب تھا اقبال کا، جس شخصیت نے ایک آزاد مملکت خداداد کا خواب دیکھا تھا۔ لاہور کے اسی میدان میں ایک عہد نامہ جسے قرار داد لاہور کہتے ہیں ٹھیک اسی جگہ منظور ہوا۔

پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے والے اس میدان کو مینار پاکستان اور گریٹر اقبال پارک کے نام سے منسوب کیا گیا۔

گریٹر اقبال پارک کو ایسے ہی اقبال کے نام سے منسوب نہیں کر دیا گیا۔ اقبال کو بڑی محبت تھی اپنی قوم کے نوجوانوں سے، بڑی امید تھی ان نوجوانوں کو شاہین کے روپ میں دیکھنے کی۔

اقبال تو ان سے کہتے تھے کہ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔ اقبال کا واحد خواب جسے شاید تعبیر نہ ملی۔

اقبال اگر آج زندہ ہوتے اور اپنے عظیم نام سے منسوب اسی میدان (گریٹر اقبال پارک) میں اسی قوم کے نوجوانوں کو ستاروں پر کمند ڈالتے نہیں بلکہ عورتوں کے لباس پھاڑتے انہیں ہوا میں اچھالتے دیکھتے تو کیا کہتے کیا سوچتے اور ان کا دل کتنا چھلنی ہوتا؟

پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے یہ اک بہانہ۔ اقبال تو شاہینوں سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ یہ دشمن پر جھپٹیں گے پھر پلٹیں گے لیکن یہ شاہین جھپٹتے اور پلٹتے تو ہیں۔

پلٹ کر جھٹ سے دوبارہ جھپٹ پڑتے ہیں لیکن معصوم اور مظلوم خواتین پر، ان  نوجوانوں کی پرواز صرف ایک مذموم کاز کے لیے ہوتی ہے کہ کسی کو نوچ لیں دبوچ ڈالیں یہاں تک کہ مار کر پیٹ کر اسے بھنبھوڑ ڈالیں۔

ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے رسوا کرتے ہیں بدنام کرتے ہیں۔  یوں یہ شاہین اپنا اپنا شکار کرتے ہیں عزتیں تار تار کرتے ہیں اور یہ جرم وہ بار بار کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ اقبال کی قوم کے نوجوانوں کا شیوہ ہے۔

خواتین کی رسوائی کرتے ہیں انہیں بدنام کرتے ہیں۔ ان نوجوان شاہینوں کے ان گنت کارناموں کی بدولت آج پاکستان دنیا بھر میں خواتین کے لیے غیرمحفوظ ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ جی ہاں پاکستان دنیا کا وہ چھٹا ملک ہے جہاں خواتین سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔

یہاں خواتین کے خلاف جرائم کرنے والے اکثر بیشتر ہی پکڑے جاتے ہیں۔ اگر پکڑے بھی جائیں تو  غیر متوازن نظام آڑے آ جاتا ہے۔ جہاں انصاف کا مطالبہ الٹا خاتون کے گلے پڑ جاتا ہے، ہر درندہ متاثرہ خاتون کے گلے کا پھندہ بن جاتا ہے۔

ہمارے انصاف کے نظام میں جنسی حملے کا شکار متاثرہ خواتین کو انصاف نہیں ملتا۔ نظامِ قانون و انصاف پر عدم اعتماد کی مثال لاہور واقعے سے لے لیں جب متاثرہ لڑکی خوف کے مارے پولیس سے کہتی نظر آئی کہ کوئی ایف آئی آر نہیں کرانا چاہتی کیونکہ اسے اعتماد نہیں قانون کے رکھوالوں پر، نہ پولیس پر نہ اداروں پر۔۔۔

ظاہر ہے جب کوئی متاثرہ لڑکی پولیس کے پاس جاتی ہے تو نئی مصیبت میں الجھ جاتی ہے۔ اور ہماری پولیس کے وہی غیر اخلاقی غیرمناسب سوالات کی بہتات۔ کیا ہوا؟ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس کے سامنے ہوا؟ بعض اوقات تو اُلٹا مظلوم خاتون پر ہی الزامات دھر دیے جاتے ہیں کہ تم نے خود کروایا ہوگا یہ کام۔

اگر کوئی لڑکی اغوا ہو جائے تو والدین سے کہا جاتا ہے کہ جی وہ اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی ہوگی۔ کسی کا ریپ ہو جائے تو کہتے ہیں آپ نے خود کروایا ہوگا۔

نہ صرف پولیس بلکہ ہمارے معاشرے کا بھی یہی وہ رویہ ہے جو ظلم کا شکار ہونے والی خواتین کو اس غیر متوازن نظامِ قانون و انصاف سے دور رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

قانون کے رکھوالوں کی غفلت اور لاپرواہی کی جھلک ہمیں مینار پاکستان واقعے میں بھی دیکھنے کو ملی جب جنسی حملے کا شکار ہونے والی لڑکی اور اس کے دوست پولیس کو مدد کے لیے پکارتے رہے۔ پھر وہی ہوا، مینار پاکستان پر سینہ تان کر حیوان دندناتے پھرتے رہے۔ 

یہ تو قصہ تھا ہمارے لولے لنگڑے انصاف کے نظام کا۔ دوسرا افسوسناک پہلو اور اہم مسئلہ ہمارے معاشرے کی سوچ کا بھی ہے۔ جب بھی کسی لڑکی کے ساتھ کوئی جرم یا زیادتی ہو جائے تو یہ معاشرہ اسی خاتون کو جرم کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح مینار پاکستان کی متاثرہ لڑکی کی بھی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اس کی ویڈیوز نکالی جا رہی ہیں کہ وہ تو ایسے ایسے کپڑے پہنتی تھی لڑکوں کے ساتھ ویڈیوز بناتی تھی اور تو اور وہ محض سستی شہرت پانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر مردوں کی جانب سے ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں کہ ایسے کپڑے پہنو گی ویڈیوز بناو گی تو پھر یہ تو ہوگا۔

ایک طرف مسئلہ ہے ہمارے دقیانوسی نظام کا کہ انصاف نہیں دیتا دوسرا بے حس معاشرہ ہے کہ ساتھ نہیں دیتا۔ جب تک کوئی لڑکی مر نہیں جاتی تب تک ہم اس کی بے گناہی کا یقین نہیں کرتے۔ لیکن مری ہوئی خواتین کو بھی اپنے عورت ہونے کا جزیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد میں گذشتہ ماہ جس لڑکی کا بہیمانہ قتل کیا گیا، مرنے کے بعد بھی اس کی کردار کشی کی گئی کہ جی وہ اس لڑکے کے ساتھ رابطے میں کیوں تھی؟ ہمارے معاشرے کی یہ منفی سوچ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ہمارے ہاں تو قبروں میں پڑی مردہ خواتین کی لاشوں تک کو ریپ کیا جاتا ہے۔ نہ خواتین کی زندگیاں محفوظ ہیں اور نہ موت۔ ہمارے ملک میں مرد خواتین کے کردار پر اس کو پرکھتے تو ہیں جانچتے تو ہیں عورت کو ’سکروٹنی‘ کی نگاہ سے دیکھتے تو ہیں لیکن اپنے کردار کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کہ اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک دنیا بھر میں غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے حوالے سے کس نمبر پر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بات اگر مرد کے کردار کی ہو تو کیا غیر اخلاقی مواد دیکھنے میں پہلے نمبروں میں ہونا کیا یہ تلخ حقیقت نہیں؟ یقینا نہیں کیونکہ انہوں نے تو صرف خواتین کے کردار کو پرکھنا ہے، اسے جانچنا ہے۔

اقبال کے شاہین کیا بتا سکتے ہیں کہ کیا یہ ہے وہ دین جو ہمارے بزرگ ہمیں سکھا گئے تھے؟ کیوں خود کو زمانہ جاہلیت میں دھکیل بیٹھے ہو؟ کیا پیغمبر اسلام کا فرمان بھول چکے ہو کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں؟ پھر کیوں ان حدوں سے تجاوز کرتے ہو؟

یہ تمام مرد جو خواتین پر جنسی حملے کرتے ہیں یہ سب راجہ گدھ کی گندی اولادیں ہیں۔ یہ سب راجہ گدھ کے گندے انڈے ہیں جو اپنی ہوس کی مردار طبیعت کے زیر تسلط خواتین کو نوچتے ہیں بھنبھوڑتے ہیں چاہے وہ زندہ یا مردہ خواتین ہوں۔

ایسی راجہ گدھ کی اولادوں اور گندے انڈوں کو عورت صرف گوشت کا ایک لوتھڑا نظر آتی ہے کوئی جیتا جاگتا یا احترام کے ساتھ دفنائی گئی خاتون نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ