تعلیمی ادارے پھر بند

تعلیمی اداروں پر پچھلے ڈیڑھ سال میں کھل جا اور بند ہو جا سم سم کی ہدایت تقریباً چھ مرتبہ لاگو کی جا چکی ہے۔

4 ستمبر 2021 کی اس تصویر میں حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر تعلیمی اداروں کی بندش کے اعلان پر لاہور میں   سکول کے طلبہ کا ایک انداز (فوٹو: اےا یف پی)

اگر کوئی حادثاتی تبدیلی نہ ہوئی تو امکان یہی ہے کہ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، میں ہزاروں اساتذہ کی طرح آن لائن تعلیم کے نام پر تدریسی خانہ پری کا آدھا دن مکمل کر چکا ہوں گا۔

تمام تر کوشش کے باوجود میں آن لائن تعلیم کے لیے فل الحال خانہ پوری کے علاوہ کوئی اور اصطلاح ڈھونڈ نہیں سکا۔ اس کی وضاحت اگلے چند پیرائے میں ہو گی۔

حقیقی کلاس روم میں طلبہ کے سامنے کھڑے ہو کر حقیقی کتابوں، قلم اور کاپیوں کے ساتھ حقیقی تعلیم دینے کے عمل میں یہ تعطل حکومت کے اس فیصلے کے بعد آیا ہے کہ کرونا (کرونا) کی وجہ سے تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔

آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب کرونا کے انفیکشنز اور اموات کا شمار بڑھنے لگے تو ایسے اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ کہنے کے لیے آپ کو پچھلے سال تعلیم کے ساتھ کھیلے جانے والے فٹ بال میچ کو یکسر بھولنا ہوگا اور یہ بھی ذہن سے نکالنا ہو گا کہ چند ہفتے پہلے تک بند کیے جانے والے تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر کھولنے کی بات کی جا رہی تھی۔

بعض نجی سکولوں نے تو اپنے طلبہ و طالبات کو ہفتے میں پانچ دن آنے سے متعلق تیاری کے بارے میں ہدایات بھی جاری کرنی شروع کر دی تھیں۔ مگر اب پتہ چلا ہے کہ تعلیم و تدریس کی تالا بندی اشد ضروری ہے۔

ایک طرف حکومت کرونا کی وبا پر قابو پانے کی کامیابی کو فخریہ انداز سے دنیا بھر میں بطور مثال پیش کرتی ہے۔ حکومتی نمائندگان اپنی کامیابیوں کی فہرست میں کرونا سے نمٹنے اور معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے کارناموں کو بار بار دہراتے ہیں۔ ٹویٹس کی بارش اور خبروں کا سیلاب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کیسے پاکستان میں ویکسینز دھڑا دھڑ آ رہی ہیں۔

فراوانی کی یہ کیفیت ہے کہ اب ویکسین 18 سال سے کم عمر بچوں کے لیے بھی لازم کر دی گئی ہے۔ اس جوشیلی مہم میں استعمال کے حوالے پنجاب کے اعدادو شمار پر بالخصوص زور دیتے ہیں۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان سب کارناموں کے باوجود حکومت خود تعلیمی اداروں کو بند کر کے عوام کو بتا رہی ہے کہ حالات قابو میں نہیں ہیں۔ بلکہ اس حد تک بگڑ رہے ہیں کہ تدریسی عمل کو پھر سے معطل کرنا پڑ رہا ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں کھل جا اور بند ہو جا سم سم کی ہدایت تقریباً چھ مرتبہ لاگو کی جا چکی ہے۔ جب وبا نئی نئی تھی تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے پاس اس کے پھیلنے یا کم ہونے سے متعلق معلومات کی کمی ہے لہذا ہم اجتماعی صحت کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات بھی کر رہے ہیں جو شاید ضروری نہ ہوں۔ اس وقت یہ وبا دنیا بھر میں تباہی پھیلا رہی تھی تو اس کے پھیلاؤ سے متعلق طبی تحقیق اور معلوماتی تجزیوں کا فقدان بھی تھا۔ ہر کوئی دوسرے کی غلطیوں سے سیکھ رہا تھا۔ سب ’حفاظت پہلے تحقیق بعد میں‘ کا اصول اپنائے ہوئے تھے۔ مگر اب یہ سب کچھ یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔

نہ معلومات کی کمی ہے اور نہ صحیح پیشں گوئی کرنے کی تکنیکی صلاحیت کی۔ اموات، انفیکشنز، ہسپتالوں میں مریضوں کی آمدورفت، ویکسین کے ردعمل وغیرہ جیسے بیسیوں ایسے زاویے موجود ہیں جن کو استعمال کر کے لچک دار مگر مسلسل پالیسی مرتب کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم یہ کیوں نہیں جان پاتے کہ اگلے دو مہینوں میں پاکستان میں انفیکشنز کیا رخ اختیار کریں گے؟ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کا مقصد ہی پاکستان بھر سے وصول شدہ معلومات کو بنیاد بنا کر کووڈ کے بارے میں پالیسی سازی کا نقشہ تیار کرنا ہے اور یہ کام سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔

ویسے نہیں جیسے ہم کسی زمانے میں محمد حنیف سے موسم کی رپورٹ جانا کرتے تھے۔ جو صبح اٹھ کر ہمیشہ غلط ثابت ہوتی تھیں (ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اب ڈاکٹر محمد حنیف پاکستان میں موسمی حالات پر سب سے مستند آواز بن گئے ہیں، آغاز میں موسم کا حال بیان کرنے کے لیے جو جہدوجہد کرنی پڑتی تھی اور جس کی وجہ سے غلطیاں ہوتی تھیں اب تجربے اور سائنس کی مدد سے تقریباً صد فیصد درست موسمی نقشوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اب تو ہر سفر کے آغاز سے پہلے موسم کا حال جاننا بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے)۔

وسائل کی بھی کمی نہیں۔ کرونا کے نام پر ڈالر چھن چھن کر برس رہے ہیں۔ بین الاقوامی صحت کے ادارے اور دوسرے ممالک جیسے امریکہ اور چین ویکسین اور ماہرین دونوں کی صورت میں ہر وقت مدد کو تیار ہیں۔

ہمیں پتہ ہے کہ وائرس کہاں کہاں پر موجود ہے۔ یہ کب بڑھتا ہے اور کب گھٹتا ہے اور کتنی فیصد آباد کو ویکسین لگوا کر ہم کس طرح اس کی روک تھام کر سکتے ہیں۔ اب تو یہ ممکن ہو جانا چاہیے کہ قوم کو پتہ ہو کہ اس کے بچوں نے سکول کب، کتنے دن اور کیسے جانا ہے۔ مگر یہ نہیں ہو رہا۔

نجومیوں کی طرح بیٹھ کر پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں۔ ستاروں کے حال کے مطابق تعلیم کے شعبے کو چلایا جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم کو اس غلط فہمی کی بنیاد پر قبول کر لیا گیا ہے کہ آپ واقعی بذریعہ کمپیوٹر یا موبائل فون تعلیم دینے کا کام سرانجام دے سکتے ہیں۔

یہ مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ ہر گھر میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو آن لائن تعلیم کے لیے اشد ضروری ہیں۔ یہ غلط فہمی پالیسی میں تبدیل کر دی گئی ہے کہ استادوں کو آن لائن تعلیم دینے کے طریقے آتے ہیں، بچوں کو کمپیوٹر کلاس روم کا ماحول فراہم کر سکتا ہے اور یہ والدین ایسے  مکانوں میں رہتے ہیں جہاں پر بجلی، انٹرنیٹ وغیرہ 24 گھنٹے موجود ہیں۔

کرونا نے تعلیمی نظام کو برے طریقے سے متاثر کیا ہے مگر ہم نے تدریسی عمل کو اپنی غیریقینی پر مبنی پالسییوں سے اس سے بھی بڑھ کر نقصان پہنچایا ہے۔ ہم خانہ پری کو تدریس، اندھی پالسیی سازی کو تدبیر اور قوم کے نقصان کو فائدہ قرار دے کر بہرحال مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ