’ظاہر جعفر کا رویہ قیدیوں سے ٹھیک نہیں‘، الگ سیل منتقل

اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ ارشد وڑائچ کے مطابق ہفتے کو نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو ساتھی قیدیوں کے ساتھ جھگڑے کے بعد علیحدہ سیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

'جعفر کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا لیکن وہ دوسرے قیدیوں کے ساتھ الجھ پڑے جس کے بعد انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔'(تصویر: سوشل میڈیا)

راولپنڈی، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ ارشد وڑائچ کے مطابق ہفتے کو نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو ساتھی قیدیوں کے ساتھ جھگڑے کے بعد علیحدہ سیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ نے عرب نیوز کے ساتھ خصوصی طور پر بات چیت میں بتایا کہ جعفر کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا لیکن وہ دوسرے قیدیوں کے ساتھ الجھ پڑے جس کے بعد انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ کے بقول: ’جعفر کا سیل میں موجود قیدیوں کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں تھا اس لیے ہم نے انہیں تنہا کر دیا ہے۔ وہ قیدیوں کے ساتھ گھلنے ملنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ قیدیوں کا کہنا تھا تھا کہ وہ جعفر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ جعفر نے کہا کہ وہ بھی دوسرے قیدیوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘

واضح رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے مہنگے سیکٹر ایف سیون فور میں کے ایک مکان میں 27 سالہ مقدم کی سربریدہ لاش پائی گئی تھی۔ قتل کے اس کیس پرجس انداز میں عوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور جس طرح کیس نے میڈیا کی توجہ حاصل کی اس کی حال میں خواتین کے خلاف دوسرے جرائم کے معاملے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قتل والے دن ملزم ظاہرجعفر کو جائے وقوع سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ابتدائی طور پر ریمانڈ  پر پولیس کے حوالے کیا گیا اور بعد میں اگست کے شروع میں عدالتی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے گذشتہ ماہ عرب نیوز کو بتایا تھا کہ جعفر کو سیل میں دو دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ ملزم کی طرف کی خود کشی کی کوشش کے خطرے کے پیش نظر ان پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا تھا کہ خود کشی کے خوف کی وجہ ملزم کو ٹوتھ برش تک نہیں دیا جا رہا ہے۔

تاہم جیل سپرنٹنڈنٹ ارشد وڑائچ نے ہفتے کو کہا ہے کہ اب جعفر سیل میں اکیلے ہیں اور سیل کے باہر پولیس گارڈ کو 24 گھنٹے کے لیے تعینات کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دوسرے قیدیوں کو دیے گئے حقوق کا مطالبہ ملزم جعفر نے بھی کیا تھا جو مسترد کر دیا گیا۔

وڑائچ نے ان حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’ملزم جعفر نے مطالبہ کیا تھا انہیں دوسرے قیدیوں کی طرح رکھا جائے جو جیل کے احاطے میں چل پھر سکتے ہیں۔ وہ لائبریری سے کتابیں لے سکتے اور اخبار پڑھ سکتے اور حکومت کی طرف سے دیا گیا ٹیلی ویژن دیکھ سکتے ہیں۔ دوسرے قیدی گھر سے اضافی سامان منگوا سکتے ہیں اور انہیں چائے بنانے کی اجازت ہے۔ ملزم جعفر کو ان میں سے کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ انہیں صرف مقدمے کی سماعت والے دن سیل سے نکالا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال پر کیا کہ امریکی سفارت خانے نے جعفر کو کوئی قانونی معاونت فراہم کی ہے؟ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ امریکی شہری ہونے کی حیثت سے ملزم کو قانونی معاونت کے لیے امریکی سفارت خانے کو ٹیلی فون کال کرنے کی اجازت ہے لیکن ابھی امریکی سفارت خانے نے ملزم کی کوئی قانونی معاونت نہیں کی۔

شواہد چھپانے اور جرم میں مدد کے الزام میں ملزم جعفر کے والد ذاکرجعفر، والدہ عصمت آدم جی اور بعض گھریلو ملازمین کو بھی 24 جولائی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے تصدیق کی ہے کہ مرکزی ملزم کے والدین نے عدالت سے جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست کی ہے جو سماجی رتبہ، تعلیم رکھنے والے قیدیوں اور پرآسائش زندگی کے عادی افراد کے لیے مخصوص ہے۔ بی کلاس کے قیدیوں کو کتابوں، اخبارات، 21 انچ کے ٹیلی ویژن، ذاتی بستر اور خوراک اور کپڑوں کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ ارشد وڑائچ کا کہنا تھا کہ ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے تاہم انہیں مقدمے کی سماعت کے موقعے پر یا جیل میں ہفتے میں ایک بار قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت ہے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ نے اس بات کی بھی تردید کی کہ نورمقدم کیس میں ملوث کسی بھی ملزم کے ساتھ کوئی ترجیحی سلوک کیا جا رہا ہے جس میں گھر کے کھانے کی فراہمی وغیرہ شامل ہے۔ ارشدوڑائچ کے مطابق: گھر کا کھانا کسی بھی قیدی کا حق نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان