حادثات میں لاپتہ ہو جانے والوں کے لیے ہیلپ لائن

ریسکیو 1122 کے بعد اب پنجاب میں 1192 ’Lost Helpline‘ کا بھی آغاز ہوگیا ہے، جس کی مدد سے کسی حادثے کے نتیجے میں گم یا لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کو ڈھونڈنا اب کچھ آسان ہو جائے گا۔

1192 لوسٹ ہیلپ لائن کے دفتر کا ایک منظر (بشکریہ ریسکیو 1122 مری فیس بک پیج)

صوبہ پنجاب میں 2004 سے کام کرنے والی پنجاب ایمرجنسی سروس یا عام فہم میں ریسکیو 1122 نے اب 1192 لوسٹ ہیلپ لائن (Lost Helpline) کا بھی آغاز کر دیا ہے، جس کی مدد سے کسی حادثے کے نتیجے میں گم یا لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کو ڈھونڈنا اب کچھ آسان ہو جائے گا۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران بتایا: ’23 مئی سے اس سروس کا ٹیسٹ رن شروع کیا گیا ہے۔ ابھی اس میں بہت سی چیزوں کو مزید بہتر کرنا باقی ہے، مگر اس کے باوجود انہیں اب تک کئی کالز موصول ہوچکی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’چونکہ ریسکیو 1122 پنجاب کا بہترین ریسکیو نیٹ ورک ہے اسی لیے ہمارے پاس مختلف قسم کے کیسز آتے ہیں جن میں ایکسیڈنٹ، جرائم، بم دھماکے، ڈوب جانا اور عمارتوں کا گر جانا وغیرہ شامل ہیں۔ ان حادثات کے نتیجے میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جن کی جیب میں ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور وہ بے ہوش ہونے کی وجہ سے کچھ بتا نہیں سکتے۔

محمد فاروق کے مطابق: ’چھوٹے بڑے شہروں کے لاری اڈوں سے روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم ایک کیس ایسا ضرور رپورٹ ہوتا ہے جس میں کوئی نوسرباز کسی مسافر کو کوئی شے کھلا کر بے ہوش کر دیتا ہے اور اس کی ساری جیب صاف کر جاتا ہے۔ ایسے لوگ سرکاری ہسپتالوں میں تین، تین دن تک بے ہوش پڑے رہتے ہیں اور ان کے لواحقین کا کچھ پتا نہیں چلتا یا پھر ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو کسی حادثے کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس بھی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ریسکیو 1122 کو کال آتی ہے کہ کسی کا بھائی، بہن، بچہ یا کوئی بزرگ لاپتہ ہے اور ہم انہیں ڈھونڈنے میں مدد کریں۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 1192 لوسٹ ہیلپ لائن کا آغاز کیا گیا ہے۔‘

یہ سروس کیسے کام کرے گی؟

محمد فاروق نے اس حوالے سے بتایا: ’فرض کریں کسی شہر میں ہونے والے کسی حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کی جان چلی جاتی ہے اور اس کی لاش ریسکیو 1122 کے پاس آتی ہے۔ اگر اس کی شناخت نہیں ہو پا رہی تو پہلے تو اس میت کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں گی جیسے اس کی ہر زاویے سے چار تصاویر کھینچی جائیں گی، پھر اس کی شناختی تفصیلات کا ریکارڈ بنایا جائے گا، جیسے اس کی عمر کتنی ہے، اس کی آنکھوں اور بالوں کا رنگ، اس کے جسم کے کسی حصے پر کوئی شناختی نشان، اس کے کپڑوں، جوتوں کا رنگ وغیرہ۔ پھر  یہ ساری تفصیلات اس شہر کے ریسکیو 1122 کے افسران جمع کریں گے، جنہیں پھر 1192 لوسٹ ہیلپ لائن کے پورٹل پر شامل کردیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ تفصیلات باقی اضلاع میں موجود 1192 لوسٹ ہیلپ لائن کو بھی بھیج دی جائیں گی، جس سے مرنے والے یا بے ہوش اور بغیر شناخت کے آنے والے زخمیوں کے لواحقین کو اپنے پیاروں کو تلاش کرنے میں کافی حد تک آسانی ہو جائے گی۔‘

محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’ہوسکتا ہے مرنے والا کسی اور شہر کا رہائشی ہو اسی لیے دوسرے اضلاع میں تفصیلات موجود ہونے کا بھی فائدہ ہوجائےگا کہ اگر اس کی گمشدگی کی رپورٹ کسی تھانے میں درج ہو چکی ہے اور تھانے والے ہم سے رجوع کرتے ہیں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ گم ہونے والے شخص سے ملتی جلتی شناخت کے کتنے لوگ ہمارے ریکارڈ میں موجود ہیں۔‘

ریسکیو 1122 کے ترجمان نے مزید بتایا کہ ’اگر ہمیں کوئی کال کرکے یہ کہتا ہے کہ ان کا کوئی پیارا گم ہو گیا ہے تو ان کی دی گئی تفصیلات کو ہم اپنے ڈیٹا بیس میں موجود ریکارڈ سے میچ کرکے ان کی مدد کرسکیں گے۔‘ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں موجود مردہ خانوں میں آنے والی لاشوں کا ریکارڈ بھی 1192 لوسٹ ہیلپ لائن کے پاس ہوگا۔

محمد فاروق کے مطابق پنجاب ایمرجنسی سروس روزانہ کی بنیاد پر 3 ہزار ایمرجنسیز پر پنجاب بھر میں لوگوں کو ریسکیو سروس فراہم کر رہی ہے، جس میں بعض اوقات ایسے حادثات کے شکار لوگوں کو ریسکیو سروس فراہم کی جاتی ہے، جن کے پاس ان کی شناخت کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہوتی۔ان میں بے ہوش اور مردہ لوگ خاص طور پر شامل ہیں۔

ریسکیو 1122 کی آفیشل ویب سائٹ پر دیکھیں تو یہاں موجود اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 2004 سے اب تک 21 لاکھ 77 ہزار 981 ٹریفک حادثات، ایک لاکھ 28 ہزار993 آتشزدگی کے حادثات، آٹھ ہزار چار عمارتیں گرنے کے واقعات، جبکہ پانی میں ڈوبنے کے 10 ہزار 722 واقعات ریکارڈ میں موجود ہیں، جن میں کافی لوگ ایسے تھے جس کی شناخت معلوم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان