ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی وادی پنج شیر میں ویرانی کے ڈیرے

اپنی املاک کی حفاظت کے لیے پیچھے رہ جانے والے عبدالواجد نے بتایا: ’یہاں کوئی نہیں بچا سوائے ضعیف اور بڑی عمر کے افراد کے اور وہ غریب خاندان جو نقل مکانی کی سکت نہیں رکھتے تھے۔‘

افغانستان کے دشوار ترین علاقے پنج شیر میں مزاحمتی گروپ نے اپنے آخری جنگجو تک طالبان کے خلاف لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، لیکن ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی اس وادی کو طالبان کی جانب سے فتح کیے جانے کے دو ہفتے بعد یہاں کے کچھ علاقے ویران اور لاوارث پڑے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وادی کے بہت سے دیہات میں اب صرف چند ضعیف افراد اور مویشی ہی موجود ہیں۔

ضلع خنج میں پہاڑوں کے دامن میں ایک بند دکان کے سائبان کے نیچے بیٹھے عبدالغفور نامی بزرگ اپنے ویران گاؤں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’طالبان کے کنٹرول سے پہلے یہاں تقریباً 100 خاندان رہتے تھے لیکن اب یہاں صرف تین لوگ ہی باقی بچے ہیں۔ سب لوگ علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ گذشتہ ماہ طالبان کے محاصرے سے قبل زیادہ تر لوگ دارالحکومت کابل کی جانب فرار ہو گئے تھے۔

یہاں سے تھوڑا اوپر مالاسپا نامی گاؤں میں پہاڑ سے گرتے ہوئے دریا کے کنارے پھیلے ہوئے سبزہ زار پر گاؤں کے لوگ کبھی بیٹھ کر گپ شپ اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے لیکن اب اس گاؤں میں صرف ایک گدھا اور ٹانگوں سے معذور 67 سالہ خیر محمد کے ساتھ چند ایک افراد ہی رہ گئے ہیں۔ 

انہوں نے کہا: ’یہاں میری طرح چند لوگ ہی بچے ہیں لیکن باقی 80 کے قریب خاندان فرار ہوگئے۔‘

اے ایف پی کے مطابق یہ پنج شیر کے گاؤں گاؤں کی کہانی ہے، جہاں صوبے کے سات اضلاع میں سے تین سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

کچھ شہروں میں تندور سمیت بنیادی ضرورت کی چند دکانیں یا سٹال ہی کھلے ہیں لیکن مارکیٹیں، جو عام طور پر تاجروں اور گاہکوں سے بھری رہتی تھیں، زیادہ تر خالی پڑی ہیں۔

اپنی املاک کی حفاظت کے لیے پیچھے رہ جانے والے 30 سالہ عبدالواجد نے بتایا کہ ’یہاں کوئی نہیں بچا سوائے ضعیف اور بڑی عمر کے افراد کے اور وہ غریب خاندان جو نقل مکانی کی سکت نہیں رکھتے تھے اور میری طرح اپنے خاندانی گھروں کی حفاظت کی خاطر یہاں رک جانے والے چند افراد کے۔‘

اس کے برعکس وادی کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والے طالبان کے بھاری ہتھیاروں سے لیس بندوق بردار جنگجو ہی یہاں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ 

یہ جنگجو حفاظت کے لیے شاہراؤں پر رکاوٹیں لگائے اور مختلف مقامات پر چوکیاں قائم کیے ہوئے ہیں یا حکومتی افواج سے مال غنیمت کے طور پر ہتھیائے گئے پک اپ ٹرکوں پر خاک آلود سڑکوں پر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پنج شیر کے جنگجوؤں کو مزاحمت کے لیے افسانوی شہرت حاصل تھی جنہوں نے پہلے ایک دہائی تک سوویت فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پہاڑی علاقے کا دفاع کیا۔ خانہ جنگی کے دوران بھی یہ وادی ناقابل تسخیر رہی اور پھر 1996 سے 2001 تک اپنی پہلی حکومت کے دوران طالبان بھی یہ علاقہ کبھی فتح نہیں کر پائے۔ 

115 کلومیٹر طویل وادی جو برف سے ڈھکی چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے، اپنے محافظوں کو قدرتی عسکری برتری فراہم کرتی ہے۔

لیکن ملک کے باقی حصوں میں شاندار فتوحات سے طالبان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے، جہاں انہوں نے شکست خوردہ افغان فوج کو فراہم کیے گئے جدید ترین امریکی اسلحے اور دیگر عسکری ساز و سامان پر قبضہ کر لیا تھا۔

سابق جنگجو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے پنج شیر کے کئی سرداران کے ساتھ مل کر طالبان کے سامنے کبھی ہتھیار نہ ڈالنے کا عہد کیا تھا۔

انہوں نے طالبان کی تباہ حال بکتر بند گاڑیوں اور پک اپ ٹرکوں کی جلتی ہوئی باقیات کو اپنی مزاحمت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا لیکن طالبان وادی کو طاقت کے زور پر زیر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رواں ماہ کے آغاز میں طالبان نے یہاں گورنر ہاؤس پر اپنا سفید جھنڈا لہرا کر فتح کا اعلان کیا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ مزاحمت کی کتنی قوت ابھی باقی ہے اور کیا اس کے رہنما ابھی تک ملک میں موجود ہیں یا نہیں۔

طالبان کی آمد وحشیانہ تھی

پنج شیر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمد وحشیانہ تھی۔

ایک بزرگ نے کہا: ’انہوں نے اپنی گاڑی کے پہیے کے نیچے ایک ڈرائیور کو کچل ڈالا اور ایک شخص کو گولی مار دی جو اپنے بچوں کے لیے کھانا تلاش کرنے گیا تھا۔‘

دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ 19 ہلاکتوں کی تصدیق کرسکتے ہیں جو کہ طالبان فورسز کے ساتھ ہونے والے کراس فائر میں ہلاک ہونے والوں لوگوں سے الگ ہیں، تاہم خنج اور بازارک کے دیہاتوں میں ان رپورٹوں کی تصدیق کرنا ناممکن ہے اور طالبان کی طرف سے ان کی تردید بھی کی گئی ہے۔

وادی میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں طالبان جنگجوؤں کی موجودگی کو دخل اندازی اور ناپسندیدگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمرز کے قریب ایک ویران گاؤں میں موجود 75 سالہ حاجی محمد یونس نے بتایا: ’جب طالبان آپ کے باغ کے دوسرے سرے پر پہنچ جائیں تو آپ ہمارے خاندان کے یہاں رہنے کی توقع کیسے کریں گے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ لوگ اب خود کو آزاد محسوس نہیں کرتے اور کابل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے لوگوں کو باہر جانے سے روکنے کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور مبینہ طور پر انہوں نے لوگوں کو اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لیے کہا ہے۔

تاہم خنج بازار میں ایک طالبان کمانڈر نے کہا کہ ’ہم لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس آ سکتے ہیں اور انہیں پریشان نہیں کیا جائے گا۔‘

ایک بزرگ نے کہا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ لوگ یہاں رہیں تاکہ وہ حملوں سے بچ سکیں۔ انہوں نے کہا: ’طالبان کی ترجیح ہے کہ دیہاتی یہاں رہیں، جن کی موجودگی انہیں انسانی ڈھال فراہم کرے گی اور اس طرح وہ بمباری سے بھی محفوظ رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا