انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے رواں ماہ کے اوائل میں کشمیر کی تاریخ سے متعلق 25 کتابوں پر پابندی عائد کی تھی جس کی عوامی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔
حکومت نے ایک بیان میں دعوی کیا کہ ان کتابوں کے ذریعے نوجوانوں میں عسکریت پسندی کا رجحان اور انڈیا مخالف جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ نے، جو براہ راست لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت آتا ہے، نے سات اگست کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ان کتابوں میں ایسا مواد موجود ہے جو ملک کی خودمختاری، سالمیت اور یکجہتی کے لیے خطرہ ہے۔
حکمنامے کے مطابق ان کتابوں کی فروخت، تقسیم کرنے یا یہاں تک کہ رکھنے پر سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
اس حکم کے اگلے ہی روز پولیس نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارنا شروع کر دیے۔
جن مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں سپریم کورٹ کے سابق وکیل و آئینی ماہر اور مصنف اے جی نورانی، بُکر پرائز ونر اروندھتی رائے، وکٹوریہ شوفیلڈ (برطانوی مورخ، جنہوں نے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر کشمیر کی تاریخ پر کئی نامور کتابیں لکھی ہیں)، سمنترا بوس اور اطہر ضیا شامل ہیں۔
دیگر ممنوعہ کتابوں میں اسلامی سکالر مولانا مودودی کی ’الجہاد فل اسلام‘، آسٹریلوی مصنف کرسٹوفر سنیڈن کی ’آزاد کشمیر‘، وکٹوریہ شوفیلڈ کی ’کشمیر ان کنفلیکٹ‘ بھی شامل ہیں۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب مرکزی حکومت خاص طور پر وزیر داخلہ امت شاہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’مودی حکومت کے تحت کشمیر میں علیحدگی پسندی آخری سانسیں لے رہی ہے‘ اور یہ کہ وادی اتحاد اور ترقی کی گواہی دے رہی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے نے نہ صرف کشمیر بلکہ انڈیا کے دانشوروں، میڈیا اور سول سوسائٹی میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے اور اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے خود کو اس حکم سے الگ کر لیا اور واضح طور پر کہا کہ یہ فیصلہ ان کی طرف سے نہیں لیا گیا۔
عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ’مجھے بزدل اور جاہل کہنے سے پہلے اپنے حقائق حاصل کر لیں، یہ پابندی لیفٹیننٹ گورنر نے پابندی لگائی ہے، وہ باضابطہ طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کنٹرول کرتے ہیں۔ میں نے کتابوں پر کبھی پابندی نہیں لگائی اور نہ کبھی ایسا کروں گا۔‘
پی ڈی پی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کتابوں پر پابندی کو تاریخ کو مٹانے کی ’ناکام کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے سے پھلتی پھولتی ہے۔ کتابوں پر پابندی تاریخ کو مٹا نہیں سکتی، بلکہ تقسیم اور بیگانگی کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ سنسرشپ خیالات کو دباتی نہیں بلکہ ان کی گونج کو بڑھاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معروف اسلامی سکالر میر واعظ کشمیر مولوی عمر فاروق نے کہا کہ کتابوں پر پابندی کو تاریخی سچائیوں کو مٹانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا: ’یہ فیصلہ ان لوگوں کی غیر محفوظ ذہنیت اور تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے جو ایک طرف تو کتاب میلہ منعقد کرتے ہیں، اور دوسری طرف سچ لکھنے والوں کی کتابیں ضبط کرتے ہیں۔‘
انورادھا بھاسن ایک نامور صحافی اور کشمیر ٹائمز کی منیجنگ ایڈیٹر ہیں۔ اُن کی کتاب Dismantled State: The Untold Story of Kashmir After 370 پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ ان کی یہ کتاب دو سال کی تحقیق، عوامی ذرائع، انٹرویوز اور فیلڈ رپورٹنگ پر مبنی ہے۔
’میری کتاب ایک صحافتی اکاؤنٹ ہے جو 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور ریاستی حیثیت کی منسوخی کے بعد کے حالات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس میں عوامی ذرائع سے ڈیٹا، انٹرویوز، فیلڈ رپورٹنگ، نئے قوانین اور پالیسیوں کا تجزیہ، تاریخی تناظر، اور زمین پر لوگوں کی زندگیوں پر ان سب کے اثرات شامل ہیں۔کیونکہ یہ کام ریاستی پالیسیوں پر تنقیدی ہے اور ایک ایسے وقت میں لکھی گئی ہے جب بھارتی حکومت نے کشمیر پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر دیا ہے - اختلاف رائے یا متبادل نقطہ نظر کی عدم برداشت کو واضح کرتے ہوئے، میرے پبلشر ہارپر کولنز نے اس موضوع کو انتہائی حساس سمجھتے ہوئے اضافی احتیاط برتی۔‘
صدف منشی کا تعلق سرینگر سے ہے اور اس وقت امریکہ میں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ ایک مصنفہ بھی ہیں۔
انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’کتابوں سے ڈرنا، انہیں ضبط کرنا یہ نہ صرف مصنفین کے کام کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ معاشرے کے اس طبقے کے ساتھ بھی جو مختلف زاویوں سے اپنی رائے قائم کرنا چاہتا ہے۔ جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ کا اصل اعتماد اس کی تنقید کو برداشت کرنے، اختلاف رائے کو سننے اور اپنی منطق کے ساتھ جواب دینے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔