افغانستان سے تاجکستان میں چینیوں پر حملے: ماضی میں کون ملوث رہا؟

تاجکستان اور افغانستان کے مابین تقریباً 1357 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس کے پیچھے عسکریت پسند گروپ جماعت انصاراللہ اور داعش خراسان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔

تاجکستان حکومت نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کی جانب سے تاجکستان میں سرحدی علاقے میں دو مختلف حملوں میں پانچ چینی شہری مارے گئے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پہلا واقعہ گذشتہ ہفتے جمعے کو اور دوسرا ایک واقعہ یکم دسمبر کو پیش آیا جن میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

حملوں کے بعد چین نے اپنے شہریوں کو سرحدی علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے تاجکستان کو سرحد پر سکیورٹی برقرار رکھنے میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ابھی تک کسی عسکریت پسند گروپ نے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن افغان طالبان نے بتایا کہ اس حملے میں ایک ایسا گروپ ملوث ہو سکتا ہے جو سرحد پر بدامنی چاہتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تاجکستان اور افغانستان سرحد پر اس قسم کے حملے کیا پہلی مرتبہ ہوئے ہیں اور ان دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں تعلقات کیسے رہے ہیں۔

تاجکستان اور افغانستان کے مابین تقریباً 1357 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں ماضی میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس کے پیچھے عسکریت پسند گروپ جماعت انصاراللہ اور داعش خراسان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔

ستمبر 2023 میں تاجکستان حکومت نے دو ایسے واقعات کی نشاندہی کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جماعت انصاراللہ کے عسکریت پسند اسلحہ سمیت سرحد پار کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

تاجکستان پر ماضی عرب، فارس سلطنت، چنگیز خان اور تمور لنگ نے حکومت کی جب کہ 1920 میں یہ سویت یونین کا حصہ بنی اور 1991 میں سویت یونین سے آزادی حصل الگ ملک بنا۔

اس وقت سے تاجکستان کی سیکولر حکومت نے ہمیشہ افغان طالبان کی مخالفت کی ہے اور گذشتہ 30 سالوں سے اقتدار میں موجود تاجک صدر نے ہمیشہ طالبان مخالف رویہ اپنایا۔ تاجک حکومت نے 2021 میں افغان طالبان کی افغانستان میں حکومت بننے کی مخالفت کی تھی۔

فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک مضمون کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان کے شمالی علاقوں میں رہنے والے تاجک نسل کے لوگوں کے ساتھ افغان طالبان کا رویہ ’ظالمانہ‘ ہے۔

تھنک ٹینک کے مطابق افغان طالبان کے پہلے دور حکومت میں تاجکستان اس وقت شمالی اتحاد فورسز کی افغان طالبان کے خلاف لڑنے میں مدد بھی فراہم کررہا تھا۔

امریکہ کے غیر سرکاری ادارے جیمس ٹاؤن فاؤنڈیشن کے ایک مضمون کے مطابق 2021 میں افغان طالبان کے آنے کے بعد شمالی علاقوں میں بعض اضلاع کو افغان طالبان نے جماعت انصاراللہ کے حوالے کیا تھا تاکہ وہ شمالی اتحاد کے ساتھ لڑ سکیں۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی فروری 2025 کی رپورٹ کے مطابق تاجکستان حکومت مخالف تنظیم جماعت انصاراللہ جو تاجک طالبان کے نام سے بھی مشہور ہے، نے صوبہ خوست میں مراکز قائم کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق تخار صوبے میں بھی اس تنظیم کے ٹریننگ مراکز موجود ہیں جو عرب اور ایشیائی ممالک سے جنگجوؤں کو بھرتی کرتے ہیں اور تاجکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جماعت انصارللہ کی بنیاد 2006 میں رکھی گئی ہے اور یہ اسلامک مومنٹ اف ازبکستان کا ایک دھڑا ہے جس کے سربراہ ملا امرالدین 2015 میں ایک آپریشن میں مارے گئے تھے۔

اسی رپورٹ کے مطابق تنظیم کے موجودہ سربراہ مہدی ارسلان بتائے جاتے ہیں جو 2015 میں افغانستان آئے تھے اور تاجکستان حکومت کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں جبکہ طالبان نے بدخشان کے پانچ اضلاع ارسلان کے حوالے کر رکھے ہیں۔

خیال رہے کہ افغان طالبان نے ہمیشہ افغانستان میں کسی بھی عسکریت پسند تنظیم کے وجود کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔

تاجکستان سرحد کی طرح افغانستان اور پاکستان کی سرحد بھی گذشتہ تقریباً ڈھائی ماہ سے بند ہے اور اس کی وجہ رواں سال اکتوبر میں دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان بارڈر پر چھڑپیں تھیں۔

پاکستان کی جانب سے یہ بتایا جاتا ہے کہ افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند سرحد پار کر کے پاکستان میں شدت پسند کارروائیاں کرتی ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے دوحہ اور ترکی میں افغان طالبان اور پاکستان کے مابین مذاکرات بھی ہوئے تھے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے تھے۔

دوسری جانب افغان طالبان پر اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کا بھی یہ دباؤ ہے کہ افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدے میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاجکستان میں شدت پسندی کی تاریخ

تاجکستان میں شدی پسندی کی تاریخ تقریباً 35 سال پرانی ہے اور تاجکستان کی وادی کیراٹیگین عسکریت پسندی کے لیے مشہور ہے۔

سویت یونین سے آزادی کے بعد تاجکستان میں 90 سے 97 تک اقتدار کی جنگ کے لیے خانہ جنگی کا شکار رہا جس میں اسلامی تنظیمیں حکومت مخالفین ڈھرے کا حصہ تھیں۔

خانہ جنگی کے دوران 1996 میں کیراٹیگین وادی میں مذہبی تنظیموں نے خوف ساختہ حکومت قائم کی اور وہاں سخت شرعی قوانین نافذ کردیے جبکہ ازبکستان سے اسلامک موومنٹ اف ازبکستان کے جنگجوں کو بھی پناہ دینا شروع کردی۔

تاجکستان حکومت نے 2000 میں آپریشن کرکے اس وادی کا کنڑرول سنبھال لیا جبکہ یہاں سے جنگجوں افغانستان چلے گئے اور تاجکستان نے کیروٹیگین وادی میں حکومتی رٹ بحال کرنے کا اعلان کردیا۔

تاہم 2014 میں نیٹو افواج کی افغانستان سے انخلا کے بعد وادی میں دوبارہ بدامنی کے خدشات پیدا ہوئے تھے اور جیمس ٹاؤن فاؤنڈیشن کے مضمون کے مطابق خوف یہ تھا عسکریت پسند افغانستان میں نیٹو کے خلاف لڑنے کے بعد دوبارہ کیراٹیگین وادی میں آئیں گے۔

اب اس وادی میں حالات کنٹرول ہے لیکن مضمون کے مطابق افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ اور سکیورٹی کے مسائل موجود ہیں اور تاجکستان حکومت روس کے ساتھ 2012 میں سکیورٹی معاہدے کی تحت مل کر سکیورٹی سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا