طالبان کے زیر غور شاہی آئین جدید دستور سے مختلف کیسے؟

ظاہر شاہ کے آئین کی رو سے افغانستان کو ایک شاہی ریاست قرار دیا گیا تھا۔ ریاست کے تمام معاملات  کا سربراہ بادشاہ تھا جو کسی کو بھی جواب دہ نہیں تھا۔

حامد کرزئی نے  بھی جب سابقہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار سنبھالا تو انھوں نے ظاہر شاہ ہی کے بنائے ہوئے آئین کو کچھ ترامیم کے ساتھ 2004 میں نافذ کیا (تصاویر: اے ایف پی)

افغانستان کے سابق بادشاہ نادر شاہ کو جب 1933 میں  ایک تقریب کے دوران قتل کیا گیا تو ان کے بیٹے محمد ظاہر شاہ نے شاہی کرسی سنبھال لی اور افغانستان کے بادشاہ بن گئے جو اس وقت تقریبا 19 سال کے تھے۔ظاہر شاہ نے  افغانستان پر تقریبا 39 سال حکمرانی کی اور 1973 میں ان کو اس کرسی سے سردار محمد داؤد خان نے بے دخل کردیا  اور افغانستان کو ایک جمہوری ریاست بنانے کا اعلان کردیا۔

ظاہر شاہ تھے تو ایک بادشاہ لیکن ان کو افغانستان کے آئین کا بانی کہا جاتا ہے، وہ آئین جس کے تحت انھوں نے افغانستان کے عوام کو ایسے حقوق دینے کا وعدہ کیا تھا جو ماضی میں کبھی نہیں ملے تھے۔

ظاہر شاہ نے 1964 میں افغانستان کے باقاعدہ آئین کا اعلان کیا اور ملک میں اس کو نافذ کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ آئین افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی حکومت تک  کچھ نہ کچھ ترامیم کے ساتھ افغانستان میں نافذ رہا۔ حامد کرزئی نے  بھی جب سابقہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار سنبھالا تو انھوں نے ظاہر شاہ ہی کے بنائے ہوئے آئین کو کچھ ترامیم کے ساتھ 2004 میں نافذ کیا۔

حال ہی میں طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ کچھ مدت کے لیے افغانستان میں ظاہر شاہ کا بنایا ہوا مذکورہ شاہی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

افغانستان کی وزارت عدلیہ نے کہا ہے کہ ظاہر شاہ کا بنایا ہوا آئین  ملک میں نافذ ہوگا تاہم اس آئین سے ایسی شقیں نکال لی جائیں گی  جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان میں  2004 سے نافذ آئین اور ظاہر شاہ دور کے آئین میں کیا ترامیم کی گئیں اور کیا ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر طالبان ظاہر شاہ دور کے شاہی ریاستی آئین کو ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

حنفی اور سلفی سنی  اسلام

ظاہر شاہ کا بنایا ہوا آئین 128 آرٹیکلز اور 11 ٹائٹل پر مشتمل ہے جس میں ریاست چلانے کے حوالے سے مختلف معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ظاہر شاہ آئین کے آرٹیکل دوئم میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ حنفی مکتب فکر ہو گا تاہم بعد میں جب 2004 میں اسی آئین کو کچھ ترامیم کے ساتھ حامدکرزئی نے نافذ کردیا تو انہوں نے حنفی کا لفظ ہٹایا دیا اور صرف یہ لکھا گیا کہ افغانستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا۔ 

یاد رہے کہ طالبان حنفی مکتبہ فکر کے پیروکار ہیں اور مبصرین کے مطابق افغان طالبان اور داعش  کے مابین  بنیادی اختلافات میں سے ایک یہی ہے کہ داعش اسلام کے سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ طالبان حنفی مکتبہ فکر کو ماننے والے ہیں۔

دونوں گروہ ایک  دوسرے پر اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روگردانی کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔ داعش نے بارہا اپنے پریس ریلیز میں یہ کہا ہے کہ ’طالبان  نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے۔‘

سویڈن میں مقیم شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے عبدالسید ’دی جیمز سٹون فاؤنڈیشن‘ میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کو یہ خدشہ ہے کہ سلفی فرقے کو ماننے والے داعش کی پیروی کرنے لگیں گے۔

عبدالسید کے مطابق کابل میں گذشتہ مہینے افغانستان کے ایک سلفی مذہبی سکالر شیخ عبداللہ متوکل کے قتل کے بعد سلفی رہنماؤں کی حفاظت کے بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب تک سلفی مکتبہ فکر کے تحت چلنے والے تین درجن سے زائد مدرسے بند کیے جا چکے ہیں جب کہ چند سلفی علما افغانستان میں طالبان کے خوف سے روپوش بھی ہیں۔

شاہی اور جمہوری نظام

ظاہر شاہ کے آئین کی رو سے افغانستان کو ایک شاہی ریاست قرار دیا گیا تھا۔ ریاست کے تمام معاملات  کا سربراہ بادشاہ تھا جو کسی کو بھی جواب دہ نہیں تھا۔

ظاہر شاہ کے آئین کا دوسرا ٹائٹل بادشاہ کی اہلیت کے حوالے سے ہے۔ اسی  ٹائٹل کی شق نمبر آٹھ میں بھی حنفی مکتبہ فکر کا ذکر موجود ہے۔ شق میں لکھا گیا ہے کہ بادشاہ اسلامی اقدار کا محافظ ہوگا اور افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا  بھی محافظ ہوگا۔

اہلیت کے باب میں لکھا گیا ہے کہ بادشاہ افغانستان کا مسلمان شہری ہوگا اور حنفی مکتبہ فکر کا پیروکار ہوگا۔ تاہم بعد میں اسی شق میں ترامیم کی گئیں۔ افغانستان کو 1974 میں سردار محمد داؤد نے ایک جمہوری اسلامی ریاست قرار دے دیا تھا اور آئین سے حنفی مکتبہ فکر کا ذکر بھی حذف کردیا گیا تھا اور اس میں صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ صدر افغانستان کا مسلمان شہری ہوگا جس کی عمر 40 سال سے کم نہیں ہوگی اور کسی بھی عدالت سے  کسی بھی جرم میں سزا یافتہ نہیں ہوگا۔

اشرف غنی کے دور تک آئین کے مطابق صدر ریاست کا سربراہ ہوا کرتا تھا اور اس کے پاس تمام اختیارات ہوتے تھے اور صدر کے ساتھ  دو نائب صدور بھی تھے جو ریاستی معاملات سنبھالنے میں صدر کی مدد کرتے تھے۔

اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق

ظاہر شاہ کے آئین سمیت بعد کے دساتیر میں افغانستان کے شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی سمیت بنیادی انسانی حقوق دینے  کی بات کی گئی ہے۔ ظاہر شاہ کے آئین کی شق نمبر 25 میں لکھا گیا ہے کہ بغیر کسی امتیازی سلوک کے افغانستان کے تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔

اسی آئین کے مطابق کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی پر کسی قسم کا تشدد کیا جائے گا چاہے وہ تفتیش کی غرض سے کیوں نہ ہو۔  آئین کے مطابق کسی کو  بغیر عدالتی وارنٹ کے گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا اور کوئی بھی ملزم اس وقت تک معصوم تصور ہوگا جب تک عدالت کی جانب سے اس پر جرم ثابت نہ  ہو جائے۔

یہی شقیں افغانستان کے جدید آئین میں بھی موجود ہیں اور ان میں کوئی خاطر خواہ ترامیم نہیں کی گئیں۔ اظہار رائے کے حوالے سے ظاہر شاہ کے بنائے گئے آئین میں کہا گیا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہر کسی کو بولنے، لکھنے یا تصویری یا کسی بھی شکل میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی ہوگی۔

ہر کسی کو اجازت ہوگی کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر  اپنے خیالات کسی بھی ذرائع سے نشر کرے اور شائع کرنے سے پہلے اس مواد کو ریاست سے پیشگی منظور کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حوالے سے ظاہر شاہ کے آئین میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی افغان شہری کو پرنٹنگ پریس اور اخبار نکالنے کی اجازت ہوگی  تاہم ریڈیو سٹیشن صرف ریاست کے زیر نگرانی چلائے جائیں گے۔

جلسے جلوس اور مظاہروں کے حوالے سے  ظاہر شاہ کے آئین میں لکھا گیا ہے کہ افغان شہریوں کو ریاست کی اجازت کے بغیر جلسے جلوس کی اجازت ہوگی تاہم مظاہروں میں کسی کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ سیاسی جماعت بنانے کی بھی عام اجازت ہوگی۔

تاہم  اس جماعت کا منشور آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے جب کہ پارٹی کے مالی معاملات عام رکھے جائیں گے۔

تعلیم حاصل کرنے کی آزادی

ظاہر شاہ کے آئین  کے آرٹیکل نمبر 34 میں لکھا گیا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر افغان شہری کا حق ہوگا اور تعلیم ریاست کی جانب سے مفت مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح  پرائمری تعلیم ان تمام علاقوں میں لازمی ہوگی جہاں پر تعلیم کی سہولیات موجود ہوں گی اور تعلیمی ادارے کھولنے کا حق صرف ریاست کو ہو گا۔

تاہم آئین کے مطابق افغان شہریون کو ٹیکنیکل اور لیٹریسی سکول کھولنے کی اجازت ہوگی اور ریاست میں بیرونی ممالک کے کسی بھی ادارے کو نجی سکولز کھولنے کی بھی اجازت ہوگی لیکن وہ خصوصی طور پر بیرونی ممالک کے طلبہ کے لیے مختص ہوگا۔

ترامیم کے بعد جدید آئین میں یہ کہا گیا کہ ریاست کی جانب سے بی اے تک کی تعلیم مفت دی جائے گی۔ اسی شق میں خواتین کی تعلیم  پر بھی بات کی گئی ہے۔

جدید آئین کے مطابق خواتین کے تعلیم کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی  اقدامات کیے جائیں گے تاکہ خواتین تعلیم حاصل کر سکیں اور ملک سے  ناخواندگی کا خاتمہ کیا جا سکے جب کہ ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا جو اسلامی اقدار، مقامی کلچر اور تعلیمی اصولوں پر مبنی ہوگا۔

روزگار کی آزادی

ظاہر شاہ کے آئین اور جدید آئین میں روزگار کی آزادی کا حق ہر افغان شہری کو دیا گیا ہے اور آئین کے مطابق کام کرنے والوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد مختلف خواتین کی جانب سے انہیں نوکری سے روکنے کی شکایات موصول ہوئیں تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے کام کے حوالے سے پالیسی مرتب کر رہے ہیں اور ان کو شرعی  اصولوں کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہوگی۔

تاہم ابھی تک طالبان کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ وہ شرعی اصول کیا ہوں گے۔

انتخابات اور پارلیمنٹ

ظاہر شاہ کا بنایا آئین مجموعی طور پر شاہی ریاست کا ہے تاہم اس میں انتخابات اور اسمبلی کا تصور موجود ہے۔ ظاہر شاہ کے آئین کے مطابق افغانستان   کی  حکومت پارلیمنٹ (شورٰی) کے ذریعے چلائی جائے گی جو ’اولسی جرگہ ‘[ایوان زیریں] اور ’مشرانو جرگہ‘[ ایوان بالا] پر مشتمل ہوگا اور ریاست کے تین اہم جز عدلیہ، مقننہ اور پارلیمنٹ ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ عین اسی طرح ہو گا جس طرح پاکستان میں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی موجود ہے۔ ظاہر شاہ کے آئین کے مطابق اولسی جرگہ کے لیے اراکین براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوں گے جس کے لیے افغانستان کو حلقوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر ایک حلقے سے ایک ایک رکن اولسی جرگہ کا رکن ہوگا۔

تاہم ظاہر شاہ کے آئین کے مطابق مشرانو جرگہ کے ارکان کا ایک تہائی  بادشاہ منتخب کرے گا جب کہ باقی ممبران اولسی جرگہ کے ارکان سے منتخب کیے جائیں گے۔ اسی شق میں جدید آئین میں ترمیم کی گئی ہے اور وہ ارکان جنہیں بادشاہ منتخب کرتے تھے ان کو تبدیل کر کے ان ارکان کو ضلعی اور صوبائی اسمبلیوں سے مشرانو جرگہ کے ذریعے منتخب کرنے کا کہا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا