طالبان کے سیاسی ایجنڈے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

15 اگست کو کابل فتح کرنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ وہ اسلامی شرعی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے تاہم انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کو مالی بحران کا سامنا ہے،بین الاقوامی امداد اور غیر ملکی ذخائر منجمد ہونے کے بعد معیشت کا پہیہ رک چکا ہے(اے ایف پی فائل)

افغانستان میں برق رفتاری سے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے کے ایک ماہ بعد طالبان نے اس ہفتے اپنی عبوری حکومت کی تشکیل مکمل کر لی لیکن ان کا سیاسی ایجنڈا ابھی تک واضح نہیں ہے۔

طالبان کا غیر واضح سیاسی ایجنڈا افغان عوام کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں بھی تشویش کو ہوا دے رہا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ طالبان سخت گیر اسلامی قواتین اور خواتین کے خلاف وہی سفاکانہ پالیسیاں مسلط کرنے کی طرف گامزن تو نہیں جو 1996 سے 2001 کے درمیان ان کی پہلی حکومت میں دیکھی گئی تھیں۔

اگرچہ طالبان کے لائحہ عمل کے بارے میں بہت کچھ غیر واضح ہے تاہم ہم ان کے سیاسی پروگرام کے بارے میں اس وقت تک کی پیش رفت پر نظر ڈالتے ہیں۔

خواتین کے حقوق

صرف مردوں پر مشتمل طالبان کی عبوری حکومت کے خواتین کے ساتھ سلوک کا دنیا بغور جائزہ لے گی اور معطل مغربی معاشی امداد کی بحالی کے لیے یہ نکتہ سب سے اہم ہوگا۔

15 اگست کو ان کے کابل فتح کرنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ وہ اسلامی شرعی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے تاہم انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

ان کے پہلے دورہ حکمرانی کے دوران خواتین کو پورا جسم اور چہرہ ڈھانپنے والے برقعے پہننے پر مجبور کیا گیا تھا، ان پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے تھے اور بغیر محرم کے گھر سے باہر نکلنے پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں جب کہ بے حیائی کے نام پر خواتین کو کوڑے اور سنگسار تک کیا جاتا رہا ہے۔

اب طالبان کی نئی حکومت نے زیادہ تر خواتین ملازمین کو ’نئے نظام‘ کی تشکیل تک گھروں رہنے کا حکم دیا ہے۔ بہت سی خواتین مستقبل میں انتقامی حملوں کے خوف سے بھی گھروں میں محصور ہیں۔

لڑکیوں کو پرائمری سکول جانے کی اجازت ہے لیکن انہیں سیکنڈری سکول جانے سے روک دیا گیا ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عارضی ہیں لیکن بہت سے لوگ اس گروپ پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔

پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی افغان خواتین مخصوص لباس اور صرف خواتین کے لیے علیحدہ کلاس رومز میں میں تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔

صحافت کی آزادی

اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے کہا کہ صحافی، بشمول خواتین میڈیا ورکرز، اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

طالبان ترجمان نے صحافت کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کو بتایا تھا: ’ہم میڈیا کی آزادی کا احترام کریں گے کیونکہ میڈیا رپورٹنگ معاشرے کے لیے مفید ہوگی اور اس سے رہنماؤں کی غلطیوں کو درست کرنے میں مدد دے سکے گی۔‘

لیکن ایک ماہ بعد ہی ان کا لہجہ بدل گیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق اس گروپ نے افغان صحافیوں کے لیے 11 قوانین نافذ کیے ہیں جنہیں اب ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ ان قوانین میں میں سے ایک ’اسلام کے برعکس مواد‘ کی نشریات پر پابندی ہو گی۔

آر ایس ایف نے کہا کہ یہ قوانین صحافیوں پر دباؤ کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اس سے سنسر شپ کے دروازے کھول سکتے ہیں۔

ستمبر کے وسط میں ان نئے ضوابط کے اعلان سے پہلے ہی کئی صحافی ملک سے فرار ہو چکے تھے۔

جو صحافی ملک چھوڑنے سے قاصر تھے وہ انتقام کے خوف سے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔

حالیہ طالبان مخالف مظاہروں کے دوران کچھ افغان صحافیوں کو گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ثقافت

اپنے پہلے دورہ اقتدار کے دوران طالبان نے شرعی قانون کی سخت تشریح کے تحت موسیقی، فوٹو گرافی، ٹیلی ویژن پروگرامز اور یہاں تک کہ بچوں کے کھیل اور پتنگ بازی پر پابندی عائد کردی تھی۔

اسی گروپ نے بامیان میں بدھ کے مجسموں کو بھی تباہ کر دیا تھا۔

اس بار طالبان نے تفریح اور ثقافت کے حوالے سے ابھی تک سرکاری احکامات جاری نہیں کیے ہیں۔

تاہم گروپ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ ماہ نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’اسلام میں موسیقی حرام ہے۔‘

کابل سمیت ملک میں میوزک سکول بند ہوچکے ہیں اور کچھ موسیقاروں نے اپنے آلات کو توڑ دیا ہے۔

لائبریریاں، عجائب گھر اور گیلریاں بھی بند ہیں۔ ثقافت کے ماہرین کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ کیا آثار قدیمہ اب ایک بار پھر غیر محفوظ ہو جائیں گے اور ادب تک رسائی کی اجازت ہوگی یا نہیں۔

معیشت

اقتصادی پالیسی نئی حکومت کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ملک کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی امداد اور غیر ملکی ذخائر منجمد ہونے کے بعد معیشت کا پہیہ رک چکا ہے۔

ان حالات میں طالبان کا معاشی پروگرام اب بھی انتہائی مبہم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے قدرتی اور اپنے دیگر وسائل پر کام کرنے جا رہے ہیں تاکہ معیشت کو بحال کیا جا سکے۔‘

لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز کیسے حاصل کریں گے۔ پانی بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن کو فعال رکھنا بھی طالبان کی حکومت کے لیے اہم چیلنچ ہے۔

لیکویڈیٹی کے بحران کے دوران اور ایک ایسے وقت میں جب آبادی پہلے ہی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، طالبان نے کہا کہ اس نے بدعنوانی کا کلچر بدل دیا ہے جس نے پچھلی حکومت کو داغدار کیا تھا۔

سکیورٹی اور منشیات

بہت سے افغان شہریوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور لڑائی ختم ہونے کے بعد سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر اطمعنان کا اظہار کیا ہے۔

لیکن طالبان نے مخالفین اور اختلافی رائے کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے خواتین کی جانب ہوا میں گولیاں چلانے اور بعد میں مؤثر طریقے سے تمام مظاہروں پر پابندی لگا کر احتجاج کا راستہ بند کر دیا ہے۔

طالبان نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ جو بھی شورش کو ہوا دینے کی کوشش کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ پنج شیر میں مزاحمتی قوتوں کو بھی سخت پیغام دیا گیا تھا۔

گروپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ داعش کی مقامی خراسان شاخ کو ختم کر دیں گے جنہوں نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول ہے۔

جہاں تک منشیات کا تعلق ہے، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عہد کیا ہے کہ نئی حکومت افغانستان کو ’منشیات کی ریاست‘ میں تبدیل نہیں کرے گی۔

کھیل

طالبان کی پہلی حکومت کے دوران کچھ کھیلوں کی اجازت تھی لیکن وہ سب مردوں کے کھیل تھے اور ان کو بھی سختی سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔

طالبان حکومت کے نئے کھیلوں کے وزیر بشیر احمد رستم زئی نے کہا کہ وہ ’شریعت‘ کے مطابق 400 کے قریب کھیلوں کی اجازت دیں گے لیکن یہ واضح کرنے سے انکار کر دیا کہ خواتین ان میں سے کسی بھی کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں یا نہیں۔

دیگر طالبان اراکین کے بیانات نے بھی ابہام اور الجھن کو جنم دیا ہے جس سے کھیلوں میں خواتین شرکت کا باب ایک بار پھر مکمل بند ہونے کا خدشہ ہے۔

افغان خواتین کھلاڑیوں میں سے کچھ پہلے ہی ملک سے فرار ہو کر بیرون ملک پناہ حاصل کر چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا