ہیلو، کشمیر ایمبیسڈر

کشمیری نوجوان عمران خان کی کرکٹ سے بہت مانوس ہیں اور اب جب سے وہ کشمیر کے سفیر بنے ہیں، بیشتر نوجوانوں میں نہ صرف کرکٹ بلکہ آزادی کا جنون مزید بڑھا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان  کی تقریر کی گونج بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی سنائی دی (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں الزامات اور جوابی الزامات کی بھرمار آپ نے بھی دیکھی ہوگی لیکن جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر میں کشمیر کا لفظ سرے سے غائب رہا وہیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کشمیر، افغانستان اور مسلم اُمہ کے درد کا برملا اظہار کیا۔

سنیہا دوبے یا صائمہ سلیم کی تکرار سوشل میڈیا پر مقبول تو ہوئی البتہ اس تکرار میں کشمیر پھر عالمی خاموشی کے سائے میں دب گیا کیونکہ طالبان کے خوف نے جیسے ہر ذہن کو جکڑ کے رکھا ہے۔

کشمیر کے مختلف طبقہ فکر سے وابستہ افراد نے اقوام متحدہ کے اجلاس پر اپنے نکتہ نگاہ سے بات کی، مگر صرف سرگوشیوں میں، کیونکہ آج کل کشمیر میں دہشت گردی سے متعلق نئے قوانین کے تحت بات کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے اور دو سال تک پتہ بھی نہیں چلتا کہ گرفتار کر کے کہاں لے جائےگیا ہے۔

لہذا اب لوگ دور دیوار بند کر کے سرگوشیوں میں بات کرنا سیکھ گئے ہیں جس کا اظہار سوشل میڈیا پر چلنے والی حالیہ ایک سپیس کے دوران اس وقت ہوا جب میزبان کے دروازے پر دستک ہوئی اور سپیس اچانک بند کرنی پڑی۔

کشمیر کےمعروف روزنامے سے وابستہ ایک صحافی نے مجھے کہا کہ ’میڈیا میں ہندوستانی موقف کو نمایاں طور پر بیان کرنے اور عمران خان کی تقریر کو سرے سے نظر انداز کرنے کی ہدایات ملی تھیں۔‘

آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر چند نیوز پورٹلوں کے سوا کسی نے عمران خان کی تقریر کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن مودی کی تقریر کو ہر پہلو سے پرکھا اور جانچا گیا البتہ بعض میڈیا اداروں نے اپنی تشنگی کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے ملک کے سربراہ کی جانب سے اپنے دشمن ملکوں کے نام لیے بغیر ہی انہیں سبق سکھانے کی دھمکی سنی۔

شوپیان میں گذشتہ برس کے ایک فوجی معرکے میں ہلاک شدہ ایک نوجوان کی ماں نے عمران خان کی تقریر یوٹیوب پر سنی، تو تمام گاوں کی عورتوں کو جمع کر کے امید دلائی کہ ’اللہ نے عمران خان کو اسی لیے پاکستان کا وزیر اعظم بنایا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو درندوں سے بچائے۔‘ مگر عورتوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔

گاوں کی رفیقہ نے فورا جواب دیا کہ ’جب تک ہمارے گاوں میں فوجی بنکر نہیں ہٹتا اور سرشام خار دار تار بچھا کر ہمیں گھر میں قید نہیں ہونا پڑے گا تب تک کسی کی تقریر کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘ رفیقہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خواب دل میں پال رہی ہے لیکن گھر والے سیکورٹی کی ہر سمت موجودگی کے کارن گھر سے نکلنے نہیں دیتے۔

پلوامہ کے گونگو علاقے کی ایک مشہور دکان پر چند زمیندار بیٹھے تھے، اشاروں اور سرگوشیوں کے دوران عمر رسیدہ شخص عبدل سلام کہتے سنے گئے کہ ’بعض ملکوں نے اپنی سہولت کے لیے اقوام متحدہ کو بنایا اور اپنی منشا کے مطابق اس کو استعمال کیا، وہاں جانے اور تقریر کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جان بوجھ کر پیدا کیے گئے تاکہ مسلمانوں کو اس ادارے کے دائرے میں لاکر پابند کیا جائے۔ ہم جیسے احمق سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے بنے ہیں، ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی جنگ خود لڑنی ہوگی چاہے پرامن طور پر یا ہتھیار اٹھا کر۔‘

عبدل سلام ابھی بات مکمل ہی کر رہے تھے کہ وہاں سے سکیورٹی فورسز کا قافلہ گزرا۔ دوکان کا شٹر فورا گرا، زمیندار حواس باختہ ہو کر گھروں کی جانب دوڑ پڑے اور وہ تنہا پٹری پر بیٹھ کر فوجی قافلے کو گھورتے رہے۔

ظاہر ہے کشمیری نوجوان عمران خان کی کرکٹ سے بہت مانوس ہیں اور اب جب سے وہ کشمیر کے سفیر بھی بن چکے ہیں، بیشتر نوجوانوں میں نہ صرف کرکٹ کا جنون ہے بلکہ آزادی کا جنون مزید گہرا ہونے لگا ہے۔

اسی لیے طالبان کی فتح کے بعد کشمیری والدین میں یہ تشویش گہری ہوتی جا رہی ہے کہ کہیں ان کے بچوں میں بندوق اٹھانے کی تحریک دوبارہ سر نہ اٹھا لے۔ بلکہ یہ خبریں بھی گشت کرنے لگی تھیں کہ بعض نوجوان لاپتہ ہوگئے ہیں جس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

حیدرآباد دکن کے ایک سماجی کارکن عارف محسن کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی تقریر سے نوجوانوں میں نہ صرف اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریک پنپ رہی ہے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک نئی امنگ پیدا ہو رہی ہے۔ خوف یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر عمران خان کو زک نہ پہنچائے، اب تو وہ تنہا مسلمانوں کے وکیل بن گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے مقابلے میں جب سری نگر میں گیارہ سال کے ظہیر سے پوچھا گیا کہ اقوام متحدہ میں مودی اور عمران کی تقریر پر وہ کیا سوچتے ہیں تو وہ خوب ہنس پڑے۔

جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے ’مودی نے کشمیر لفظ کا استعمال نہ کرنے سے ظاہر کیا کہ ان کے لیے یہ مسئلہ کتنا بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں۔ عمران خان نے کشمیر مسئلے کو اس وقت زائل کر دیا جب انہوں نے طالبان، بھارت کے مسلمانوں اور دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ اٹھایا۔

’میں تو ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہیلو کشمیر ایمبیسڈر، آپ پہلے وہ کام ڈھنگ سے کریں نا جو آپ نے خود اپنے ذمے ڈالا ہے، سارے جہاں کا درد لے کر کہاں نکل پڑے ہیں، پہلے سفیر بننے کا فرض تو ادا کریں، پھر طالبان اور بھارتی مسلمانوں کا بیڑا سر پر اٹھائیں۔‘

ظہیر کی دلیل سن کر آس پاس موجود ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا اور ذہن میں یہ بات گھر کر گئی ’ہیلو ایمبیسڈر، پہلے وہ کام کریں جس کا وعدہ کیا ہے، دنیا کا درد لیے کیوں پھرتے رہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ