ماں بننے کے بعد بھی جنوبی کورین فٹ بالر کا جنون کم نہ ہوا

ہوانگ بو۔ ریم آئندہ ماہ ویمن ورلڈ کپ میں حصہ لے کر جنوبی کوریا کے معاشرے کے ان روایتی خیالات کو غلط ثابت کر دیں گی کہ ماں بننے کے بعد ایک خاتون کے لیے کھیلنا ممکن نہیں رہتا۔

ہوانگ بو۔ ریم کے ہاں 14 ماہ قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی  (اے ایف پی)

جنوبی کوریا کی فٹ بال کی کھلاڑی ہوانگ بو۔ ریم بیٹی کی پیدائش کے بعد اپنے ملک میں وہ پہلی ماں ہوں گی جو اگلے مہینے ہونے والے ویمن فٹ بال ورلڈ کپ میں حصہ لیں گی۔

ہوانگ بو۔ ریم ورلڈ کپ میں حصہ لے کر جنوبی کوریا کے معاشرے کے ان روایتی خیالات کو غلط ثابت کر دیں گی کہ ماں بننے کے بعد ایک خاتون کے لیے کھیلنا ممکن نہیں رہتا۔

جنوبی کوریا میں اجرت کے معاملے میں صنفی فرق بہت زیادہ ہے۔ شادی اور بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے ایک خاتون کا پیشہ ورانہ کیریئر بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں ہوانگ بو۔ ریم جنوبی کوریا کی فٹ بال ٹیم کی شادی شدہ اور زائد العمر (31 سالہ) کھلاڑی ہوں گی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہوانگ بو۔ ریم کی ذاتی زندگی کی وجہ سے ورلڈ کپ شہ سرخیوں کی زینت بنے گا۔ 2015 میں مونٹریال میں ہونے والے ورلڈ کپ میں جنوبی کوریا اور کوسٹاریکا کے درمیان میچ کے بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد کھلاڑی لی ڈیو ہی نے انہیں کھیل کے میدان میں ہی شادی کی پیشکش کی تھی۔  

ہوانگ بو۔ ریم کے ہاں 14 ماہ قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ بہت کم لوگوں کو امید تھی کہ وہ شادی کے بعد جنوبی کوریا فٹ بال کی اعلیٰ ترین ڈبلیوکے لیگ میں واپس آئیں گی۔  

ہوانگ بو۔ ریم کو ان کے فٹ بال کلب ہواچیون کے ایس پی او نے دسمبر میں بحال کردیا تھا، جس کے بعد وہ اپریل میں قومی ٹیم میں واپس آ گئیں اور اس ماہ انہیں ورلڈ کپ ٹیم کے لیے نامزد کردیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ٹورنامنٹ سے پہلے لگائے گئے کیمپ میں شرکت کے لیے سویڈن روانہ ہونے سے قبل میڈیا سے بات چیت میں ہوانگ بو۔ ریم نےکہا: ’تربیت بہت سخت تھی کیونکہ میں نے اچھی مثال قائم کرنی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ کہیں کہ اس کی تو بیٹی ہے یا اس کی عمر زیادہ ہے اس لیے وہ فٹ بال نہیں کھیل سکتی۔ اس لیے میں نے کوئی بہانہ نہیں بنایا اور جذبات قابو میں رکھ کر سخت تربیت کی۔‘

جنوبی کوریا ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے جس کا کھیلوں کی دنیا میں بھی ایک مقام ہے۔ ایشیا میں جنوبی کوریا اور جاپان میں موسم گرما اور سرما کے اولمپک مقابلے کرائے جاتے ہیں۔

تاہم یہاں کئی اعتبار سے درجاتی اور پدرسری نظام کا غلبہ ہے۔ 82 فیصد ملازمتیں شادی شدہ مردوں جبکہ 53 فیصد شادی شدہ خواتین کو دی جاتی ہیں۔ ماؤں اور شادی شدہ خواتین کو اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی کمپنیاں انہیں ملازمت دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں کیونکہ کمپنیوں کو ان کی سنجیدگی پر شبہ ہوتا ہے یا انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ کارکنوں کے لیے طے شدہ اوقات کے مطابق کام نہیں کرسکیں گی۔

ترقی یافتہ معیشتوں میں جنوبی کوریا میں اجرت کے لحاظ سے صنفی فرق سب سے زیادہ ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین صرف 63 فیصد کماتی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے فٹ بال کا کھیل بھی اس فرق سے بالا تر نہیں ہے۔

2015 میں ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے مونٹریال جانے والے مرد کھلاڑیوں کو بزنس جبکہ خواتین کو اکانومی کلاس کے ہوائی ٹکٹ دیئے گئے جس پر جنوبی کوریا فٹ بال ایسوسی ایشن کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جواب میں ایسوسی ایشن نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’مرد کھلاڑی خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ کما کر دیتے ہیں۔‘

’سینٹر فار سپورٹس کلچر ریسرچ گروپ‘ کے ڈائریکٹر چوا ڈونگ ہو کے مطابق ہوانگ بو۔ ریم صرف اس لیے اہم شخصیت نہیں کہ انہیں ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے بلکہ ان کی شمولیت جنوبی کوریا کے معاشرے میں تبدیلی کے حوالے سے ایک بامعنی کامیابی ہے جہاں ماں بننے کے بعد خواتین کو ملازمت پر واپسی یا کام کی تلاش میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔  

ڈاکٹرکی ہدایت پر ہوانگ نے حمل کے دوران فٹ بال نہیں کھیلی۔ بیٹی کی پیدائش کے پانچ ماہ بعد انہوں نے ورزش کا آغاز کیا اور تین ماہ بعد ایک ہائی سکول کی فٹ بال ٹیم کے ساتھ مشق شروع کر دی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں ہوانگ کے خاوند لی ڈیو ہی کا کہنا تھا کہ ان کی بیوی کا سفر بہت سخت تھا۔ انہوں نے دو سال تک  پیشہ ور کھلاڑی کے طور پر فٹ بال نہیں کھیلی۔ یہ صورت حال تو اُن خاتون کھلاڑیوں کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں جنہیں حمل ہوا اور نہ انہوں نے بچے کو جنم دیا۔

لی ڈیو ہی مزید کہتے ہیں کہ ہوانگ دباؤ کا شکار تھیں کیونکہ ظاہر ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ایک خاتون کے جسم میں تبدیلی آتی ہے۔ اپنے طور پر ہر کوشش کرنے کے باوجود انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اسی طرح فٹ بال کھیل سکیں گی جس طرح بیٹی پیدا ہونے سے پہلے کھیلا کرتی تھیں۔

دوسری جانب فٹ بال کلب ’ہواچیون‘ کے ایس پی او کے ہیڈ کوچ کانگ جے سون، جو ہوانگ بو۔ ریم کو 20 برس سے جانتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ہوانگ کی جنوبی کوریا کی قومی ٹیم میں واپسی پر انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین