کم عمر میں دلہا دلہن کے کھیل کے خلاف جنگ

مصری حکومت نے بچوں کی شادی کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور مروجہ قوانین میں ترامیم کا آغاز کیا ہے مگر اب بھی ایسے کیس سامنے آتے جا رہے ہیں۔

چار اکتوبر 2012 کو قائرہ میں صدارتی محل کے باہر خواتین کا احتجاج (اے ایف پی)

بچوں کی تصاویر اکثر والدین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر چھائی ہوتی ہیں۔ بچے کے سکول میں پہلے دن کی لی گئی تصاویر تو ہر سال پوسٹ کرنے کا عام رجحان ہے۔ بچے اپنی استری شدہ وردیوں، ہونٹوں پر تبسم آمیز شرارتی مسکراہٹ لیے نئے سکول بستوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ 

والدین کو اپنے ایسے بچوں پر فخر ہوتا ہے۔ بعض اوقات محض ان کے وجود کی حقیقت کے علاوہ فخر کی کوئی اور وجہ نہیں ہوتی۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات دوسری تصاویر بھی سامنے آتی ہیں جو گھمنڈی والدین نے بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہوتی ہیں۔

ان تصاویر میں موجود بچوں نے سکول وردیاں نہیں پہن رکھی ہوتی ہیں یا وہ سکول بیگ لے کر نہیں جا رہے ہیں۔

ان میں بچوں کے چہرے پر کوئی شرارتی مسکراہٹیں نہیں ہوتیں بلکہ ان تصاویر میں لڑکیوں کو بھاری میک اپ تھوپا گیا ہوتا ہے۔ بالوں کو جوڑا کیا جاتا ہے اور ان کے جسم کو کیموفلاج کیا ہوتا ہے، کسی بھاری سکول بیگ سے نہیں، بلکہ اس کی بجائے شادی کے بھاری بھرکم لباس کے وزن سے ایسا ہوتا ہے۔ اسی طرح کم سن دلہا لڑکے کو بھاری بھرکم سوٹ پہنایا ہوتا ہے۔

اچانک بلوغت کی مشقت ان کے ناپختہ جسموں پرگرادی جاتی ہے تاکہ انہیں نسوانیت یا مردانگی کے بکھیڑوں میں ڈال دیا جائے جب کہ حقیقت میں وہ ابھی عمر کے لحاظ سے ان ذمے داریوں کو اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔

حال ہی میں مصر میں منگنی کی ایک تقریب کی تصویر منظرعام پر آئی ہے۔ اس میں 11 سالہ دلہن اپنے 12 سالہ دلہا کے ساتھ موجود ہے۔ تصویر میں لڑکی کی نگاہیں نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہیں، مصنوعی بھنوؤں، مسکارے اور کاجل سے ڈھیلے بھاری کر دیے گئے ہیں، بال سیدھے اکڑاؤ کیے ہوئے اور جسم گلابی ساٹن میں لپٹا ہوا ہے اور چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں۔ شاید اس سے میک اپ برباد ہونے کا خطرہ لاحق ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر دلہن کو یہ بھی خوف لاحق ہے کہ اس کو والدین کے تحقیر آمیز سلوک کا سامنا ہوسکتا ہے۔

وہ مستقبل کی ایک اچھی بیوی بننے کے لیے تیار کی جا رہی تھی۔

تابع، مخلص، اور ایک اکڑے لباس میں ملبوس، جو اس کے جسم کو اپنے مستقبل کے شوہر کے سامنے خوب صورت نظر آنے کے لیے پہنایا گیا تھا۔ لڑکا سفید قمیص اور سیاہ پتلون میں تھا۔ وہ گھبرا کر اپنا بازو دلہن سے کھینچ کر پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔

تمام بچوں کی طرح، وہ بڑے لوگوں کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک عورت اور مرد کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ صرف اس مرتبہ ہی دو معصوم بچوں کے درمیان دلہا اور دلہن کا یہ کھیل نہیں کھیلا جا رہا ہے بلکہ المیہ ہے کہ والدین کی طرف سے اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ جشن کی یہ تصویر انجانے میں ہونے والے نقصان کے بارے میں بتاتی ہے۔ یہ ان والدین کی عکاسی کر رہی ہے جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ لڑکی کی قدرتی جگہ اس کا اپنا گھر ہے، اور اگر ایک لڑکا روٹی، روزی کمانے کے قابل ہوگیا ہے تو وہ شادی کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور نئی ازدواجی زندگی شروع کرنے کے لیے بالکل موزوں ہے۔

اس تصویر میں ماضی کے دور کی سرگوشی کا بھی اعادہ ہو رہا ہے جب ان بچوں کے والدین کی نسل کے لوگوں کو کم عمری ہی میں بیاہ دیا جاتا تھا کیونکہ انہیں شادی کے لیے اس وقت موزوں سمجھا جاتا تھا۔

یہ معاملہ تاریخی جہالت کے چکر کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ والدین اب اپنے بچوں پر بھی اپنے گزرے ہوئے دور کے رسوم ورواج کو لاگو کر رہے ہیں۔ اگر یہ دائرہ نہیں ٹوٹا ہے تو یہ ایک طرح سے اس اصول کو دوام بخش رہا ہے اور یہ روایت درحقیقت ایک مکروہ طرز عمل کی بھی عکاس ہے۔ مجھے ان لوگوں کے رویے سے مایوسی ہوئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ بالغوں کا اس راستے پر چلنا ٹھیک ہے اور وہ ہمارے ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔

اس تصویر کے پوسٹ ہونے کے ایک گھنٹے بعد ہی حکام نے بچوں کو خطرے میں ڈالنے اور ان سے بدسلوکی کے الزام میں ان کے والدین کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس کارروائی کے باوجود، مصر میں اکثر بچوں کی شادیاں انجام پاتی رہتی ہیں مگر حکام کی مداخلت کے خوف سے انہیں عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔

لڑکیوں کو عام طور پر اپنے والدین کی مستقبل میں دیکھ بھال کے لیے سکولوں سے اٹھوا لیا جاتا ہے۔ پر بڑی لڑکی کو بالعموم گھریلو کام کاج میں اپنی ماں کی مدد اور شادی کی تیاری سے قبل اپنے بہت سے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر ہی میں رکھا جاتا ہے۔

انتہائی کم عمر کی دلہن جو شاید شدید غربت میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے، اچانک ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ لہٰذا وہ اس صورت حال سے لطف اندوز بھی ہوتی ہے۔ وہ خریداری اور تحائف سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اپنے دلہا سے جبری شفقت کی واحد وصول کنندہ بھی ہوتی ہے۔

مگر کوئی بھی اس کو بچہ دلہن ہونے کے جسمانی اور نفسیاتی مسائل کے بارے میں نہیں بتاتا۔ کوئی بھی اس کو اوائل عمری میں حمل کے خطرات کے بارے میں نہیں بتاتا یا یہ کہ ماں بننے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی اسے یہ نہیں بتاتا کہ اس کا شوہر بڑا ہو کر بدتمیزی کرنے والا آدمی بن سکتا ہے، یا اس کے بچوں کا اندراج نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی شادی اس وقت تک قانونی نہیں قرار نہیں پائے گی جب تک کہ وہ 18 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔

اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ اس کے بچے کو حکومت کی طرف سے مہیا کردہ ویکسین یا زرتلافی والی خدمات تک رسائی نہیں ہوگی۔ کوئی بھی اسے ان امور میں سے کچھ نہیں بتاتا ہے۔

وہ سب اس کو صرف مبارک باد کہتے ہیں اور کم سن دلہن اور دلہا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ اب بڑے ہوچکے ہو، ہم آپ کو بہت سارے تحائف خرید کر دیں گے اور آپ لوگ اپنے گھر میں رہو گے۔ کم عمر دلہن کسی چیز پر سوال نہیں اٹھاتی کیونکہ اس کی آنکھیں خوشی سے خیرہ ہو رہی ہوتی ہیں اور اگر وہ کوئی سوال کرتی بھی ہے تو کوئی اس کو مناسب جواب نہیں دے گا۔

مصری حکومت نے بچوں کی شادی کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور مروجہ قوانین میں ترامیم کا آغاز کیا ہے۔ ان ترامیم میں شادی کی قانونی عمر بڑھانا اور بچوں کی شادی کے معاملات کی اطلاع دینے کے لیے ٹیلی فون ہاٹ لائن کی فراہمی شامل ہے۔

کم عمری کی شادیوں میں ملوث بالغوں کے خلاف سخت قانونی سزاؤں کا آغاز اس عمل میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ کم عمری میں تمام بچوں کی شادیوں کے خاتمے اور سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والی شادیوں کو روکنے کے لیے ایک وسیع تر اور منظم حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

 

تعارف: ہبا یوسری قاہرہ میں نفسیات اور فلسفہ پڑھاتی ہیں۔ا نہوں نے امریکن یونیورسٹی قاہرہ سے عربی ادب اور فلسفہ میں پوسٹ گریجوایٹ ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ تدریس کے ساتھ تحقیق بھی کرتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ مضمون العربیہ اردو پر اس سے قبل شائع ہوچکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ