امریکہ میں ابھی بھی بچوں کی شادیاں کیوں ہو رہی ہے؟

'کچھ امریکی ریاستوں میں کم عمری کی شادی سے متعلق قوانین افغانستان ، ہونڈراس اور ملاوی جیسے ممالک کے قوانین سے بھی کمزور ہیں۔'

فریڈی ریس نیو جرسی میں ایک آرتھوڈوکس یہودی کمیونٹی میں پلی بڑھیں، جن کا کہنا ہے کہ جب وہ 19 سال کی تھی تو انہیں شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

ڈونا پولارڈ پہلی بار اپنے مستقبل کے شوہر سے اس وقت ملیں جب وہ 14 سال کی تھی۔ وہ اپنے والد کی موت کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی مسائل کے باعث امریکی ریاست کینٹکی کے ایک ذہنی صحت کے مرکز میں زیر علاج تھیں، جبکہ ان کے مستبقل کے شوہر اس وقت 29 سال کے تھے اور اس مرکز میں بطور ٹیکنیشن کام کرتے تھے۔

ڈونا کا بچپن بہت مشکل تھا اور ان کی والدہ، جن کی شادی خود بھی کم عمری میں ہی ہوگئی تھی، ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار تھیں۔ ڈونا کا کہنا ہے: 'ایک نوجوان لڑکی کی حیثیت سے مدد کی بجائے ایک ایسے شخص نے میرا شکار کیا جو اس ذہنی صحت کے مرکز میں کام کرتا تھا۔' اس مرکز میں کام کرنے والے مذکورہ ٹیکنیشن سنسان جگہوں پر ڈونا کو ملتے اور انہیں بتاتے کہ وہ ذہین ہے، جس سے 'وہ خود کو خوبصورت محسوس کرتی۔'

جب وہ اس مرکز سے باہر آئیں، تو ان کی والدہ نے اس تعلق کو جاری رکھنے کی اجازت دی اور وہ ریاستی سرحد پار کر کے ان سے ملنے انڈیانا جاپہنچیں۔ دو سال کے بعد جب ڈونا 16 سال کی ہوگئیں تو ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ 'میں نے اس شخص کو اپنے لیے ایک سورما سمجھا، لیکن وہ بہت ہی جلد ایسا شخص بن گیا جو میرے ساتھ گالم گلوچ کرتا تھا۔' انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر پرتشدد اور جوڑ توڑ کے ماہر تھے اور اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانے پر چلی جاتیں تو وہ خود کشی کی کوششوں کا ڈراما کرنے لگتے۔

'انہوں نے میرا استحصال کرنا شروع کیا اور مجھے اس مقصد کے لیے بھیجنے لگے کہ میں اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کو گھر لاؤں تاکہ وہ ان کے ساتھ پارٹی کریں۔'

ڈونا جلد ہی حاملہ ہوگئیں، تاہم ان کا یہ حمل ضائع ہوگیا۔ جب دو ہفتوں کے شدید بخار اور تکلیف کے بعد وہ 'موت کی دہلیز' پر تھیں، تب ہی وہ (ان کے شوہر) انہیں ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے۔ ڈونا کے مطابق: '16 سال کی لڑکی کی حیثیت سے میں اپنے علاج سے متعلق فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔ میں شادی شدہ تھی، میں نے سوچا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بالغوں کے حقوق حاصل ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔'

ڈونا کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر انہیں ان کی 18 ویں سالگرہ کے موقع پر پہلی بار سٹرپ کلب لے گئے، جبکہ وہ سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ 'میں غمگین ہوگئی تھی، میں نے جاتے وقت مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت اصرار کر رہے تھے۔'

ان کی بچی کی پیدائش کے بعد ان کے شوہر نے مبینہ طور پر 'جلد آسان رقم' کے حصول اور 'لڑکیوں اور منشیات کی فراہمی' کے لیے ڈونا کو کلب میں کام کروانے کی کوشش کی۔

'میں مکمل طور پر پھنس گئی تھی، میرے ساتھ کوئی نہیں تھا۔'

'گرلز ناٹ برائیڈز' نامی تنظیم کی سی ای او داکٹر فیتھ وانگی پاول کے مطابق صرف دو امریکی ریاستوں ڈیلاویئر اور نیو جرسی میں شادی کی عمر 18 سال رکھی گئی ہے، جس میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ 12 ریاستوں میں عمر کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے جبکہ چھ ریاستیں کم عمر لڑکیوں کو حاملہ ہوجانے کی صورت میں شادی کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ان ریاستوں میں کم عمری کی شادی کے قوانین 'افغانستان ، ہونڈراس اور ملاوی جیسے ممالک میں بچوں کی شادیوں کے قوانین سے بھی کمزور ہیں۔'

طاہری جسٹس سینٹر کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نو عمری میں حاملہ ہوجانے والی لڑکیاں جب شادی کرتی ہیں تو ان کے پانچ یا اس سے زیادہ بچے پیدا ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے، ان کا اسکول چھوڑنے کا امکان 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے اور کالج کے مکمل ہونے کا امکان چار گنا کم ہوتا ہے۔اس سینٹر سے منسلک جین سموت کہتی ہیں: 'یہ ایک خطرناک حد تک گمراہ کن خیال ہے کہ نوعمر حاملہ بچیوں کو شادی کرلینی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ سنگل رہنے کو ترجیح دیں اور ساری تحقیق اس کے بالکل برعکس دکھاتی ہے۔'

فریڈی ریس نیو جرسی میں ایک آرتھوڈوکس یہودی کمیونٹی میں پلی بڑھیں، جن کا کہنا ہے کہ جب وہ 19 سال کی تھی تو انہیں شادی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ 15 سال تک شادی شدہ زندگی میں مشکلات برداشت کرنے کے بعد وہ اپنی برادری کی پہلی لڑکی تھیں، جنہوں نے عدالت سے اپنے شوہر کے خلاف آرڈرز حاصل کیے۔ بعدازاں انہوں نے ایک تنظیم 'اَن چینڈ ایٹ لاسٹ' قائم کی، جو امریکہ میں بچوں کی شادیوں کے خلاف کام کرتی ہے۔

'میں شروع سے ہی طلاق لینا چاہتی تھی، لیکن جس کمیونٹی سے میرا تعلق تھا، وہاں عورت کو اپنی شادی ختم کرنے کا قانونی حق نہیں ہے۔' فریڈی کا مزید کہنا تھا کہ طلاق کے ساتھ ساتھ 'مذہبی قوانین اور رسوم' نے بھی بے شمار دوسرے حقوق تک رسائی کو ان کے لیے ناممکن بنا دیا، جیسے پیدائش پر قابو پانے کے طریقوں کے استعمال کی اجازت، غیر محفوظ جنسی تعلق پر مجبور کیا جانا اور اپنے پیسوں تک رسائی نہ ہونے نے انہیں مکمل طور پر اپنے شوہر پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا۔

فریڈی کے مطابق: 'جب آخر کار میں اپنے خاندان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تو انہوں نے وہاں سے چلے جانے کی سزا کے طور پر مجھے مردہ قرار دے دیا۔'

فریڈی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ لاعلم ہیں کہ بچپن کی شادیاں ابھی بھی قانونی ہیں اور ہو رہی ہیں، بلکہ وہ اسے ایک ماضی کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 'قانون سازوں کو قوانین میں تبدیلی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کے لیے زیادہ دباؤ محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ بہت سارے اراکین پارلیمنٹ اب بھی لڑکیوں کے حوالے سے پرانی اقدار اور فرسودہ خیالات سے چمٹے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی لڑکی شادی کے بغیر ہی حاملہ ہوجاتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔ انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔ وہ ان مطالعات کی پرواہ نہیں کرتے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک حاملہ شادی شدہ نوعمر لڑکی کو زیادہ معاشی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'

دستیاب اعداد و شمارکے مطابق 2000 سے 2015 کے درمیان  کم از کم 207،459 نابالغوں نے ریاست ہائے متحدہ میں شادی کی تھی۔ اگرچہ مہم چلانے والوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اس تعداد میں 87 فیصد لڑکیاں تھیں، جن میں 86 فیصد نے بالغ افراد سے شادی کی تھی۔ اس مدت کے دوران ریاست الاسکا، لوزیانا اور جنوبی کیرولائنا میں 12 سالہ بچوں کو شادی کا لائسنس دیا گیا اور 13 سالہ بچوں کو ریاست الاباما، فلوریڈا، اڈاہو، کینٹکی، لوزیانا، مسیسیپی، میسوری، نیو ہیمپشائر، نیو جرسی، نیو میکسیکو، جنوبی کیرولائنا، ٹینیسی، ٹیکسس اور واشنگٹن میں شادی کی اجازت دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمر کے سب سے بڑے فرق کی ایک مثال ایک 74 سالہ شخص کی الاباما میں ایک 14 سالہ لڑکی سے شادی تھی، جس کے بعد ریاست نے شادی کی کم از کم عمر 16 سال کردی تھی۔ اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ متعدد برادریوں میں پھیلا ہوا ہے۔

 جین سموت کا کہنا ہے کہ 'حالات کا مذہب، ثقافت یا کسی خاص برادری سے تعلق رکھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق ان طریقوں سے ہے، جن کے ذریعے اس شخص کو پہلے ہی خطرات لاحق ہوں۔'

اس وقت دنیا میں 2030 تک مزید 150 ملین لڑکیوں کی شادی کا خطرہ ہے، جیسا کہ ڈاکٹر فیتھ وانگی پاول کہتی ہیں: 'یہ 150 ملین بہت زیادہ ہے۔'

بچپن میں شادی کرنے سے آپ بہت سارے حفاظتی فوائد حاصل نہیں کرسکتے جو کہ بالغوں کو حاصل ہوتے ہیں۔

کچھ ریاستوں میں بچے والدین کی شمولیت کے بغیر طلاق کے لیے مقدمہ دائر نہیں کرسکتے، یا قانونی مشورہ حاصل نہیں کرسکتے یا پھر نابالغ ہونے کی وجہ سے خواتین کے شیلٹر ہومز میں پناہ حاصل نہیں کرسکتے۔

اس حوالے سے سرگرم کارکنوں نے یہ بھی انتباہ کیا ہے کہ چائلڈ پروٹیکٹو سروسز قوانین میں خلا کی وجہ سے ہمیشہ بچوں کی شادیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں۔ فریڈی ریس کا کہنا ہے کہ یہ لڑکیوں کے لیے ایک 'پھندے' کی طرح ہوتا ہے۔ جب یہ لڑکیاں مدد کے لیے ہم تک پہنچتی ہیں اور ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ان کے اختیارات کتنے محدود ہیں تو وہ خود کو مارنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 2020 میں بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم لڑکیوں کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہی واحد راستہ ہے؟'

13 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں نابالغوں کے لیے شادی کا لائسنس جج کے بغیر جاری کیا جاسکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ صرف والدین اور کسی کلرک کو اس کی منظوری دینی ہوگی۔ جین سموت کا کہنا ہے کہ 'ایک کلرک کے پاس کیا ہوتا ہے، کبھی کبھی ایک منٹ سے بھی کم وقت، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ فارم پُر ہو گیا ہے۔' انہوں نے مزید کہا: 'وہ سماجی کارکن کی حیثیت سے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔۔۔ وہ سول قوانین کو جانتے ہیں اور ان کے سامنے موجود سول قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر فلاں شخص معیار پر پورا اتر جاتا ہے تو آپ شادی کا لائسنس جاری کرسکتے ہیں۔'

حتیٰ کہ ان واقعات میں جہاں جج نے کوئی فیصلہ دیا ہو، کسی بچی کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ 'اگر کسی بچی کو عدالت تک جاتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اکثر اوقات اسے یہ بتایا جاتا ہے اور شرائط رکھی جاتی ہیں کہ مخصوص سوالات کے لیے صرف کچھ خاص باتیں ہی کہنی ہیں۔ اگر اس سے صرف یہ پوچھا جائے کہ 'کیا آپ یہی کرنا چاہتی ہیں' اور وہ بچی وہ سب کہتی ہے جو اسے کہنے کو کہا گیا ہے تو یہ انکوائری کا اختتام ہوسکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں اس سوال کو پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔'

جین سموت نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ایسی مثالوں کو دیکھا ہے جہاں لڑکیوں کو ان کے اہل خانہ اور شوہروں نے بتایا ہے کہ اگر وہ حکام کے پاس جائیں گی تو انہیں 'دیکھ بھال کے لیے کسی کے سپرد کردیا جائے گا اور زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا۔'

انہوں نے بتایا کہ نوعمر ڈونا پولارڈ کے لیے تابوت میں آخری کیل وہ تھی، جب ان کے شوہر نے انہیں اپنی بیٹی کے سامنے فرش پر باندھ دیا اور ان کا گلا گھونٹنے لگا۔ 'میں نے اپنی بیٹی کو دیکھا اور یہ سوچا کہ میں مرجاؤں گی۔ میں خود کو ختم ہوتے ہوئے محسوس کرسکتی تھی اور مجھے یاد ہے کہ ہوش و حواس کھونے سے پہلے میں نے دیکھا کہ وہ ہنس رہی تھی اور مجھے احساس ہوا کہ وہ صرف ایک بچی ہے، ابھی رینگنا سیکھ رہی ہے اور اس کے معصوم دماغ میں ہم کھیل رہے تھے- اس کی ماں اور باپ کُشتی لڑ رہے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر میں اس سب سے باہر نہیں نکلی تو وہ اس سب کو معمول سمجھتے ہوئے ہی بڑی ہوگی۔'

ڈونا جس بوتیک دکان میں کام کرتی تھیں، وہاں سے ملنے والی ِٹپ کو بچا بچا کر، جس کے بارے میں ان کے شوہر کو علم نہیں تھا، بالآخر وہ اپنی پرتشدد شادی شدہ زندگی سے نکل آئیں۔

جب وہ فرار ہوگئیں تو ایک بار اپنی بیٹی کی تحویل کے لیے اپنے شوہر کو عدالت لے گئیں۔ 'جب جج نے میری طرف دیکھا، ایک ہائی اسکول سے نکلی ہوئی لڑکی، جس نے دسویں جماعت بھی پوری نہیں کی تھی- اس وقت ایک سٹرپ کلب میں کام کرکے میں ایک گھنٹے میں آٹھ ڈالر کما رہی تھی- میں ایسی لگتی تھی جیسے مجھے مستبقل کی کوئی فکر نہیں ہے جبکہ وہ (ان کا شوہر) 30 کے پیٹے میں تھا، اس کے پاس کالج کی ڈگری اور مستحکم آمدنی تھی، اس لیے مجھے بہت جلد احساس ہوا کہ مجھے اپنی بچی کو تحویل میں لینے کا موقع نہیں ملے گا اور میں آج تک اسے بچی کی سپورٹ کے لیے ادائیگی کرتی ہوں۔'

ڈونا اب 'سروائیورز کارنرز' چلاتی ہیں اور ان لڑکیوں کے معاملات دیکھ رہی ہیں جنہوں نے 11 سال کی عمر میں شادی کی تھی۔ انہوں نے 2018 میں کینٹکی میں ایک بل کو کامیابی کے ساتھ لکھنے میں مدد کی تھی، جو والدین کی مرضی کے ساتھ بچپن کی شادیوں کے خاتمے سے متعلق تھا، تاہم اس بل کا منظور ہونا آسان نہیں تھا۔

ڈونا کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی مخالفت قدامت پسند غیر منافع بخش تنظیم 'دی فیملی فاؤنڈیشن' کی جانب سے سامنے آئی۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ 'ان کی بنیادی پریشانی اسقاط حمل تک رسائی کو کم کرنا ہے۔ اگر کسی بچے کے بارے میں فیصلے کے حوالے سے والدین کی رضامندی کی بات کو سائیڈ پر کردیا جاتا ہے تو اسقاط حمل تک رسائی کے لیے بھی اس کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔'

فیملی فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے کینٹ آسٹرینڈر زور دیتے ہیں کہ ان کی تنظیم نہیں چاہتی ہے '13 سالہ لڑکیوں کو ان کے دوستوں کے والدین ریپ کا نشانہ بنائیں۔' ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 18 سال کی عمر کی حد 'ٹھیک' ہے اور اگر یہ  16 سال ہوجائے تو وہ اس پر بھی خوش ہوں گے۔ تاہم وہ اپنی تنظیم کے اس موقف کے ساتھ کھڑے ہیں کہ والدین کو شادی کے عمل میں شامل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا: 'اگر والدین نے 17 سال تک محبت کے ساتھ کسی بچے کی پرورش کی ہے تو وہ اس (شادی کے عمل) میں شامل ہونے کے مستحق ہیں۔'

فریڈی ریس کا کہنا ہے کہ 'یہ بات واضح ہے کہ والدین کے پاس اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور ان پر قابو رکھنے کے حقوق ہیں۔ تاہم یہ (حقوق) بچوں کے بالغ جنسی تعلقات میں داخل ہونے یا زندگی بھر کے لیے لاگو نہیں ہوسکتے۔'

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کسی بھی تحقیق میں کبھی بھی یہ نہیں دکھایا گیا ہے کہ کم عمری کی شادیاں روکنے سے نوعمری میں اسقاط حمل کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ 'اگر ہم بچوں کی شادی ختم کردیں، جو صرف دو ریاستوں نے کیا ہے، تو مجھے اندازہ ہے کہ نو عمر لڑکیوں میں حمل کی شرح کم ہوجائے گی اور اسقاط حمل کے حق میں اور اس کے خلاف بحث کرنے والے افراد کو معلوم ہوگا۔

بل منظور ہونے کے باوجود، وہ اکثر تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں، کاغذ کے ڈھیر پر پڑے رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو منظور ہونے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ امریکہ کا انوکھا قانون سازی کا عمل سماجی کارکنوں کے لیے مستقل رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، جس میں ریاست بہ ریاست قانون سازی ہوتی ہے اور  جس کی وجہ سے بچوں کی شادیوں کے خاتمے کی جنگ سست ہوجاتی ہے۔ نظریاتی طور پر صدر ملک بھر میں اس پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرسکتے ہیں، لیکن جیسا کہ ڈونا پولارڈ کا کہنا ہے: 'مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایسی کوئی چیز ہے جس پر موجودہ انتظامیہ غور کرے گی۔'

تبدیلی ممکن ہے، جیسا کہ متعدد ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے جنہوں نے بچ جانے والوں کی بات سنی ہے اور کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن اگر قوانین میں تبدیلی نہیں کی گئی تو امریکہ میں ہزاروں مزید بچوں کی شادیاں ہوتی رہیں گی۔ فریڈی ریس کا کہنا ہے کہ 'اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر آپ اسے ختم کردیتے ہیں تو یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس سے صرف ان لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے جو بچوں سے ریپ کرتے ہیں، اور کچھ حد تک میں اسے ٹھیک سمجھتی ہوں۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل