آٹھ اکتوبر کا زلزلہ: وہ شاپنگ پلازہ جو تب گرا اور نہ اب

2005 کے زلزلے میں بالاکوٹ کا ہنستابستا شہر پل بھر میں ملبے کا ڈھیر بن گیا، لیکن تباہی و بربادی کے بیچ ایک عمارت ایسی بھی ہے جو محفوظ رہی اور16 برس بعد بھی اپنی جگہ پرموجود ہے۔

مدنی شاپنگ پلازہ کا بیرونی منظر (فوٹو انڈپینڈنٹ اردو)

’جب 2005 کا زلزلہ آیا تو تقریباً صبح کے آٹھ بجکر 52 منٹ تھے اور میں یہاں اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ زلزلہ آیا تو مدنی پلازہ بالا کوٹ جو کہ اس وقت الحمداللہ قائم و دائم ہے اور 2005 کے زلزلے میں بھی قائم و دائم رہا۔ یہ بلڈنگ بالکل ایسے ہوئی، ایک طرف سے ایسے ہوئی اور ایک طرف سے ایسے ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پھر اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی۔‘

’چاروں طرف جتنی بھی عمارتیں تھیں سب گرگئیں لیکن مدنی پلازہ پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ اس کو قائم رکھا اور آج دن تک یہاں جو بھی بزنس مین یا تاجر بھائی ہیں، ان ہی دکانوں میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔‘

آٹھ اکتوبر 2005 کے جان لیوا زلزلے نے ہزاروں جانیں لیں، سینکڑوں عمارتیں تباہ ہوئیں اور ایک ہنستا بستا شہر پل بھر میں ملبے کا ڈھیر بن گیا، لیکن تباہی و بربادی کی اس داستان میں ایک عمارت کا نام ان الفاظ میں درج ہے کہ وہ زلزلے کے دوران محفوظ رہی اور آج 16 برس گزرنے کے بعد بھی اسی طرح اپنی جگہ پر موجود ہے۔

 

بالاکوٹ بازار میں واقع اس دو منزلہ شاپنگ پلازہ کو دیکھیں تو کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آج سے 16 سال پہلے اس عمارت پر بھی ایک قیامت گزری تھی، لیکن اس شاپنگ پلازہ میں کاروبار کرنے والے دکاندار وہ دن، وہ لمحات، وہ سانحہ آج تک بھول نہیں پائے۔

68 سالہ انور خان 2003 سے اس شاپنگ پلازہ میں جوتوں کا کاروبار کر رہے ہیں اور زلزلے کے وقت اپنی دکان میں ہی موجود تھے۔

انہوں نے بتایا: ’2005 میں جس وقت زلزلہ آیا میں اپنی دکان پر تھا۔ صبح آٹھ بجکر 52 یا 55 منٹ کا وقت تھا، میں نے دکان صفائی وغیرہ کرکے جیسے ہی کھولی تو اتنے میں زلزلہ آیا اور میں دوڑ کر باہر چلا گیا۔‘

’پلازہ کی چھت کے اوپر ایک بلاک پڑا ہوا تھا، وہ اوپر سے پھسل کر آیا اور سیدھا میرے سر میں لگنے کے بعد میرے ہاتھ پر لگا، جس سے میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میں اس وقت باہر چلا گیا اور دکان میں واپس نہیں آیا کیونکہ اس وقت آفٹرشاکس ہو رہے تھے۔‘

انور خان کے مطابق زلزلے کے مناظر ناقابل بیان تھے، خود ان کے گھر کے تین افراد اس زلزلے میں چل بسے، لیکن ہائی سکول بالاکوٹ میں جو کچھ ان کی آنکھوں نے دیکھا، وہ انہیں بھلائے نہیں بھولتا۔

انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا: ’جب میں اپنی بچی کو ہائی سکول بالاکوٹ سے لینے کے لیے گیا تو جب میں نے وہاں خون دیکھا، ان بچیوں کی تڑپ دیکھی تو مجھے وہ منظر آج تک نہیں بھولتا میرے اپنے گھر کے بھی تین افراد فوت ہوئے۔ میرا بیٹا، پوتا اور میری اہلیہ فوت ہوئیں لیکن وہ سکول والا منظر میں زندگی بھر بھلا نہیں سکتا، کیونکہ جوان بچیاں تھیں اور اتنی بے بسی کی حالت تھی کہ آدمی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔‘

انور خان کی بیٹی اُن دنوں نویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں، جنہیں لے کر جب وہ گھر جارہے تھے تو انہیں اپنے گھر کے دیگر تین افراد کی موت کی اطلاع ملی، جو بالاکوٹ بازار کی طرف جارہے تھے کہ زلزلے کی وجہ سے لیںڈ سلائیڈنگ کے باعث ان کی گاڑی ملبے تلے دب گئی، جن کی لاشیں انہیں 11 مہینے کے بعد ملیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے اس پر کافی پیسے بھی خرچ کیے، نیچے پہاڑ کو کھودنا شروع کیا، اوپر تک گیا، لیکن نہیں ملے۔ 11 مہینےکے بعد ان کے جنازے مجھے ملے، جو  الحمداللہ بالکل صحیح حالت میں تھے کیونکہ ہمارا علاقہ کچھ ایسا ہے کہ ٹھنڈ ہے تو (لاشیں) خراب نہیں ہوئی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب بھی کوئی چیز جاتی ہے تو اللہ پاک حوصلہ دے دیتے ہیں۔ سال گزرا، چھ مہینے گزرے، ہم پھر اپنی زندگیوں میں واپس آئے۔ آج 2021 ہے، میرے خیال میں 16 سال گزر چکے ہیں لیکن وہ صدمہ ہم نہیں بھولے۔‘

طارق بشیر بھی مدنی پلازہ کے ایسے ہی دکان دار ہیں، جو آٹھ اکتوبر 2005 کو اپنی کپڑوں کی دکان میں کام میں مصروف تھے کہ زلزلے نے ہر چیز تہس نہس کر ڈالی۔

انہوں نے بتایا: ’2005 میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت ہم یہیں موجود تھے، جس طرح آج کل رونق لگی ہوئی ہے، اسی طرح کام کر رہے تھے، لیکن (زلزلے میں) کوئی مارکیٹ نہیں بچی تھی، ہر طرف افراتفری مچ گئی تھی۔ ہم لوگ بڑی مشکل سے گرتے گراتے گھر پہنچے تو میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا، تقریباً گیارہ بجے ہمیں ان کی میت ملی۔ ہر طرف لاشیں بچھی ہوئی تھیں اور زخمیوں کی چیخ و پکار تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ لوگ عمارت سے نکل کر جاچکے تھے اور دکانیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھی۔ ’مہینہ دو مہینہ یہ دکانیں کھلی ہوئی تھیں، کوئی یہاں آیا ہی نہیں۔ سامان وغیرہ باہر تھا، کسی میں ہمت ہی نہیں تھی کہ دکان بند کرے۔ ایک ڈیڑھ مہینے بعد آئے تو دکان کا سامان اندر رکھا اور شٹر گرائے۔ ایک ڈیڑھ سال تک تو ہمیں پتہ ہی  نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے۔۔۔جو جس جگہ بیٹھتا تھا، وہیں بیٹھا رہ جاتا تھا۔ سب ذہبی ٹینشن میں تھے۔‘

نیو بالاکوٹ سٹی کا کیا ہوا؟

زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہونے والے بالاکوٹ شہر کو حکومت وقت نے ریڈ زون قرار دے کر متاثرین کو بکریال کے مقام پر نیو بالاکوٹ سٹی میں بسانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوسکا۔

نیوبالاکوٹ سٹی میں اپنے نام کی طرح کچھ بھی ’نیو‘ نہیں اور اسے دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہاں کسی کو بسانے کا کوئی ارادہ ہے۔

اگرچہ رواں برس جون میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ نیو بالاکوٹ سٹی کے قیام کے لیے مطلوبہ اراضی حاصل کرلی گئی اور 90 فیصد زمینداروں کو ادائیگی کر دی گئی۔

وزیراعلیٰ نے کمشنر ہزارہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا تھا تاکہ زلزلے سے متاثرہ لوگوں سے مشاورت ہوسکے اور پرانے بالاکوٹ شہر کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے ان سے کیے گئے وعدوں کو بھی پورا کیا جاسکے۔

تاہم پرانے بالاکوٹ کے مکین کچھ الگ ہی داستان سنتے ہیں۔ انور خان نے اس حوالے سے بتایا: ’2005 میں حکومت نے کہا تھا کہ اب بالاکوٹ ریڈ زون ہے تو آپ کو نیو بالاکوٹ سٹی میں پلاٹ دیں گے اور وہاں پر آپ کو شفٹ کریں گے لیکن صد افسوس کہ آج 16 سال گزر چکے ہیں، لوگ یہاں گرمیوں اور سردیوں میں خیموں اور شیلٹروں میں رہ رہے ہیں، لیکن آج دن تک ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔‘

دوسری جانب طارق بشیر نے زلزلے کے بعد ملنے والی غیر ملکی امداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’چھ ارب ڈالر جو امداد آئی تھی، اس سے ایسے دس بالاکوٹ بن سکتے تھے، لیکن لوگ 15 ، 16 سال سے ان ہی شیلٹرز میں رہ رہے ہیں۔‘

’16 سال سے کہہ رہے ہیں کہ بالاکوٹ سٹی کا یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا۔‘

 ساتھ ہی انہوں نے تجویز پیش کی: ’آپ نے گھروں کے لیے تو ہمیں کچھ نہیں دینا، بس اتنی مہربانی کردیں کہ بلاسود قرضے دے دیں، جو بعد میں واپس لے لیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان