’کیا پتہ زلزلہ دوبارہ آجائے‘: متاثرین کو آفٹرشاکس کا خوف

24 ستمبر کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں اب تک 38 افراد ہلاک اور 723 زخمی ہوئے ہیں جبکہ 454 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ متاثرین کے دلوں میں آفٹر شاکس آنے کا خوف بیٹھا ہوا ہے۔

زلزلہ متاثرین  آفٹرشاکس کے ڈر سے گھروں کے اندر نہیں جا رہے۔ (تصویر: اے ایف پی)

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق منگل (24 ستمبر)کو پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع میرپور میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں اب تک 38 افراد ہلاک جبکہ 723 زخمی ہوئے ہیں۔

ایک طرف جہاں میرپور کے زلزلہ متاثرین کے چہروں پر افسوس، درد اور اداسی کے تاثرات دیکھے جاسکتے ہیں، وہیں ان کے دلوں میں آفٹر شاکس آنے کا خوف بھی بیٹھا ہوا ہے۔

میر پور کے گاوں سنگھا ہل کی معمر رہائشی زلیخا بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خدشے کا اظہار کیا: ’ لوگ گھر کے اندر جانے سے ڈر رہے ہیں۔ کیا پتہ زلزلہ دوبارہ آجائے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ہر زلزلے کے بعد بہت سارے زلزلے آتے ہیں۔‘

زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے رہائشی زلزلے کے آفٹر شاکس سے خوفزدہ ہیں۔ آفٹر شاکس پہلے زلزلے کی طرح شدید تو نہیں ہوتے، تاہم پیروں تلے ہلتی زمین اور سروں کے اوپر جھومتی چھتیں انسان کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں اور اگر چھتوں اور دیواروں میں پہلے سے دراڑیں موجود ہوں تو خوف کئی گنا بڑھ جانا قدرتی امر ہے۔

پہلا بڑا آفٹرشاک

ضلع میرپور میں منگل کے شدید زلزلے کے بعد پہلا بڑا آفٹر شاک جمعرات کی دوپہر محسوس کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس زلزلے کی شدت 4.4 تھی، جسے میرپور کے کئی حصوں میں ریکارڈ کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی زلزلے کی پہلے سے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اور یہی بات آفٹر شاکس کے لیے بھی درست ہے۔

آفٹر شاکس کے اسی خوف کے باعث زلزلہ متاثرین اپنے گھروں کے اندر جانے سے کترا رہے ہیں۔

454 مکانات متاثر

زلزلے کے بعد میرپور کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو اکثر لوگوں خصوصاً خواتین کو بغیر چھت کے کھلے مقامات پر بیٹھے پایا۔

میر پور کے دیہی علاقوں میں گھروں کا رقبہ کافی بڑا ہے۔ اکثر عمارتیں چھوٹی ہیں، جن کے سامنے زمین کے بڑے بڑے قطعات کھلے صحن کی شکل میں موجود ہیں جبکہ گلی کی طرف محض چند فٹ اونچی دیواریں ہوتی ہیں۔

زلزلے کے باعث کئی مکانات کی چھتیں مکمل یا جزوی طور پر گر گئی ہیں جبکہ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، خصوصاً کچے مکانات بالکل ناقابل استعمال ہیں اور ان کے مکین دوسرے علاقوں میں رہائش پذیر رشتہ داروں کے گھروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق زلزلے سے 454 مکانات متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 319 جزوی جبکہ 135 مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔

تاہم جو خاندان دوسری جگہ منتقل نہیں ہوئے وہ اپنے گھروں کے صحنوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

سنگھا ہل کی رہائشی نگینہ نے بتایا: ’ہم گھر کے اندر جانے سے ڈر رہے ہیں۔ چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہے اور دوسرا زلزلہ بھی آ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی خاندان حکومت کی طرف سے فراہم کیے جانے والے خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن گھروں میں بڑے صحن ہیں ان کے مکین وہیں خیمے لگا رہے ہیں جبکہ بغیر صحن کے گھر والے قریب ہی کسی کھلے مقام یا کھیتوں میں خیمے لگا کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

زلزلے نے ان علاقوں میں کئی پکے مکانات کو بھی متاثر کیا ہے۔

سنگھا ککریاں میں محمد ریاض کے خوبصورت مکان میں کئی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔

آفٹر شاکس کے ڈر سے ریاض گھر کے سامنے خیمہ لگا کر اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’میرا گھر اس قابل نہیں کہ اندر رہا جا سکے۔ زلزلے کے مزید جھٹکے آئے تو یہ گر سکتا ہے۔‘

سنگھا ککریا میں ہی ایک بڑی حویلی کی دیواریں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ اگرچہ حویلی کی چھتیں محفوظ ہیں، تاہم دیواروں پر مکڑی کے جالوں جیسی دراڑیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

حویلی کے خوفزدہ مالک مکرم احمد کا کہنا تھا: ’رہنے کو تو ہم اپنی حویلی میں رہ لیں، لیکن اگر دوبارہ زلزلہ آیا تو اس کو ہم اسے گرنے سے نہیں روک سکیں گے۔‘

زلزلے سے متاثرہ دیہات کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ہر طرف سے جھکی ہوئی دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

کئی گھروں کے مالکان نے گرتی دیواروں کو لوہے کے گارڈرز اور لکڑی کے بڑے بڑے لاگز کے ذریعہ روک رکھا ہے۔

سنگھا ہل کے رہائشی محمد اورنگزیب زلزلے کے اگلے ہی روز مزدوروں کے ذریعے اپنے گھر کی بیرونی دیوار منہدم کروا رہے تھے۔

اورنگزیب نے اتنی جلدی گھر کی دیوار گرانے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’یہ راستہ ہے۔ اگر دوسرا زلزلہ آیا تو یہ دیوار گر جائے گی اور کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔‘

پنجاب سے آئے ریسکیو 1122 کے سٹیشن کوآرڈینیٹر ہارون سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا اگلا کام متاثرہ علاقوں سے عمارتوں کا ملبہ ہٹانا ہے اور اس کے بعد ہم نقصانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ فی الحال ہم زخمیوں اور متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے خاندانوں کی مدد پر توجہ دے رہے ہیں۔

ملبے کے ڈھیر

زلزلے سے متاثرہ دیہاتوں کی گلیوں میں اکثر مقامات پر اینٹوں اور دیگر عمارتی ملبوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اکثر راستے ملبے کے باعث بند ہو گئے ہیں اور صرف پیدل چلنے والے ہی اینٹوں کے ڈھیروں پر سے گزر کر راستہ عبور کر سکتے ہیں۔

آفٹر شاکس کا خوف متاثرینِ زلزلہ کو اپنے گھروں کے اندر جانے سے روکے ہوئے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مخدوش عمارتوں کو منہدم کیا جائے اور گلیوں اور راستوں میں پڑا ملبہ فوراً اٹھایا جائے۔

سنگھا آنے والے ایک فلاحی ادارے کے کارکن شعیب خان کا کہنا تھا: ’اگر راستوں اور گلیوں میں پڑا یہ ملبہ وغیرہ ہٹا لیا جائے تو ان لوگوں کا آدھا خوف ختم ہو جائے گا۔‘

ریسکیو 1122 کے ہارون سعید نے بھی مخدوش عمارتوں کومنہدم کرنے کی اہمیت کا اعتراف کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تمام حکومتی ادارے ایک مخصوص طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں اور ایک مرحلہ مکمل ہونے پر ہی اگلے مرحلے میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے۔ اس سے ہونے والے نقصانات سے بہر حال نمٹنا پڑے گا اور یہ عوام اور حکومتی اداروں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان